Tafseer-e-Mazhari - Al-Furqaan : 23
وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا
وَقَدِمْنَآ : اور ہم آئے (متوجہ ہونگے) اِلٰى : طرف مَا عَمِلُوْا : جو انہوں نے کیے مِنْ عَمَلٍ : کوئی کام فَجَعَلْنٰهُ : تو ہم کردینگے نہیں هَبَآءً : غبار مَّنْثُوْرًا : بکھرا ہوا (پراگندہ)
اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اُڑتی خاک کردیں گے
وقدمنا الی ما عملوا من عمل فجلعنہ ہبآء منثورا۔ اور ہم ان کے ان (نیک) اعمال کی طرف جو وہ (دنیا میں) کرچکے تھے متوجہ ہوں گے سو ان کو ایسا کردیں گے جیسے پریشان غبار۔ مِنْ عَمَلٍیعنی کافروں کے اچھے اعمال جیسے مہمان نوازی ‘ کنبہ پوری ‘ رشتہ داروں سے حسن سلوک ‘ مصیبت زدہ کی مدد وغیرہ۔ ہَبَآءً مَّنْثُوْرًا یعنی بےکار ‘ رائیگاں جس کا آخرت میں کوئی ثواب نہ ہوگا ‘ کیونکہ ثواب کی شرط ہے ایمان اور محض اللہ کے لئے نیکی کرنا اور یہ دونوں شرطیں کافروں کے اعمال میں مفقود ہیں۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا ہباء ان ذروں کو کہتے ہیں جو روشندانوں (اور کو اڑوں) کے شگافوں سے سورج کی روشنی پر غبار کی طرح نظر آتے ہیں ‘ مگر ہاتھ سے ان کو چھوا نہیں جاسکتا اور نہ وہ سایہ میں نظر آتے ہیں۔ حسن ‘ مجاہد اور عکرمہ نے بھی اس لفظ کی یہی تشریح کی۔ منثور کا معنی ہے پراگندہ۔ حضرت ابن عباس : ؓ ‘ قتادہ اور سعید بن جبیر نے فرمایا ہباء اس دھول کو کہتے ہیں جس کو ہوا اڑاتی ہے اور بکھیرتی ہے۔ مقاتل نے کہا ہباء منثور وہ ذرات ہوتے ہیں جو روشندانوں کے سوراخوں سے سورج کی کرنوں پر نظر آتے ہیں اور ہبا منبث وہ دھول ہوتی ہے جو گھوڑوں کی ٹاپوں سے اٹھتی اور اس کو اڑاتی ہے۔ کافروں کے اچھے اعمال آخرت میں ناکارہ ثابت ہوں گے ان کی کوئی حقیقت نہ ہوگی اس حقارت اور عدم افادیت کو ہباء سے تشبیہ دی۔ پھر منثور فرمایا ہباء منثور کی کوئی تنظیم نہیں۔ کفار کے اعمال کی بھی تنظیم نہ ہوگی (کسی ضابطۂ ایمان کے زبر اثر منظم نہ ہوں گے) یا ہبا منثور کی طرح منتشر ہوجائیں گے۔
Top