Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 57
وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰى١ؕ كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ١ؕ وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
وَظَلَّلْنَا : اور ہم نے سایہ کیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْغَمَامَ : بادل وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے اتارا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى : من اور سلوا كُلُوْا : تم کھاؤ مِنْ ۔ طَيِّبَاتِ : سے۔ پاک مَا رَزَقْنَاكُمْ : جو ہم نے تمہیں دیں وَ مَاظَلَمُوْنَا : اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا وَلَٰكِنْ : لیکن کَانُوْا : تھے اَنْفُسَهُمْ : اپنی جانیں يَظْلِمُوْنَ : وہ ظلم کرتے تھے
اور بادل کا تم پر سایہ کئے رکھا اور (تمہارے لیے) من و سلویٰ اتارتے رہے کہ جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائی ہیں، ان کو کھاؤ (پیو) مگر تمہارے بزرگوں نے ان نعمتوں کی کچھ قدر نہ جانی (اور) وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑتے تھے بلکہ اپنا ہی نقصان کرتے تھے
وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْکُمْ الْغَمَامَ ( اور ہم نے تم پر ابر کا سایہ کیا) غمام ( ابر) غم (بمعنی چھپانے اور پوشیدہ کرنے) سے مشتق ہے اور ابر کو غمام اس وجہ سے کہتے ہیں کہ وہ آفتاب کو چھپا لیتا ہے۔ یہ قصہ اس طرح ہوا تھا کہ بنی اسرائیل کو قوم عمالقہ سے جہاد کرنے کا حکم ہوا یہ تعمیل حکم میں جھجکے اور سستی کی اس پر انہیں ایک سنسان ہُو کے میدان 1 ؂ میں چالیس سال تک حیران و پریشان پھرنے کی سزا ملی تو آخر کار اس ہولناک میدان میں کہ جس میں نہ کوئی درخت سایہ دار تھا اور نہ کوئی سایہ کی شے تھے بھٹکتے پھرے سب نے موسیٰ (علیہ السلام) سے شکایت کی آپ کی مناجات پر حق تعالیٰ نے ایک پتلا پتلا سفید ابر بارش کے ابر میں سے سایہ کے لیے بھیجا اور ایک نور کا ستون رحمت فرمایا وہ اندھیری راتوں میں روشن ہوجاتا۔ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ ( اور ہم نے اتارا تم پر من) یعنی تیہ میں اکثر مفسرین کہتے ہیں کہ مَن سے مراد ترنجبین ہے اور بعض نے کہا پتلی چپاتی۔ مجاہد فرماتے ہیں کہ مَن گوند کی مثل ایک شے ہے درختوں پر آآ کر گرجاتی تھی اس کا مزہ شہد کا سا ہوتا تھا۔ مروی ہے کہ اول اللہ تعالیٰ نے صرف مَن نازل فرمایا تھا جب کھاتے کھاتے انہیں بہت دن گذر گئے تو سب نے حضرت موسیٰ سے عرض کیا کہ حضرت اس مَن کی مٹھاس نے تو ہمیں تباہ کردیا۔ کہاں تک اسے کھائیں جناب باری میں دعا کیجئے کہ ہمیں گوشت کھلائے اس پر اللہ تعالیٰ نے سلویٰ نازل فرمایا۔ وَالسَّلْوٰی ( اور سلویٰ ) سلویٰ اکثر مفسرین کے نزدیک ایک پرند ہے جو بٹیر کے مشابہ ہوتا ہے اور بعض نے کہا خود بٹیر ہی تھا اور اس کے نزول کی یہ کیفیت ہوتی کہ اللہ تعالیٰ ایک ابر بھیجتا اس میں سے طلوع آفتاب تک نیزہ برابر طول اور میل بھر عرض میں سلویٰ برابر برستا ہر ایک شخص اس میں سے ایک دن رات کی قدر اٹھا لیتا اور جمعہ کے روز دو دن کی قدر کیونکہ ہفتہ کے دن کچھ نہ برستا تھا اور ہم نے ان سے کہہ دیا۔ کُلُوْا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ ( کھاؤ پاکیزہ چیزیں جو ہم نے تمہیں دیں) طیبات حلال اور لذیذ چیزیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ہوا تھا کہ ہر روز جس قدر کھا سکو لیا کرو مگر دوسرے دن کے لیے ذخیرہ نہ کرکے نہ رکھنا۔ انہوں نے اس حکم کی تعمیل نہ کی اور سینت سینت کر رکھنے لگے آخر کار وہ نعمت بند ہوگئی اور جو اٹھا رکھتے وہ خراب ہوجاتا۔ امام احمد بخاری اور مسلم نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے تو کھانا اور گوشت کبھی نہ سڑتا اور جو حوّا نہ ہوتیں تو کوئی عورت اپنے خاوند سے بےوفائی نہ کرتی 1 ؂۔ وَ مَا ظَلَمُوْنَا ( اور ان لوگوں نے ہمارا تو کچھ نہ بگاڑا) اس میں اختصار ہے معطوف علیہ ہے تقدیر کلام یہ ہے کہ پھر ان لوگوں نے نعمت کی ناشکری کرکے اپنا نقصان کیا اور ہمار اکچھ نہ کیا۔ وَ لٰکِن کَانُوْا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ ( لیکن کچھ اپنا ہی کھوتے رہے) اور اپنانقصان اس طرح کیا کہ آخرت میں حق تعالیٰ کے عذاب کے مستحق ہوئے اور دنیا میں اپنا رزق کھویا جو بلا مشقت دنیوی اور بلا حساب اخروی انہیں ملتا تھا۔
Top