Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 278
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو ایمان لائے (ایمان والے) اتَّقُوا : تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَذَرُوْا : اور چھوڑ دو مَا : جو بَقِيَ : جو باقی رہ گیا ہے مِنَ : سے الرِّبٰٓوا : سود اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
مومنو! خدا سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا : (اے مسلمانو ! اللہ سے ڈرو اور بقیہ سود چھوڑ دو ۔ یعنی شرط کے مطابق تمہارا جو سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہو وہ وصول نہ کرو چھوڑ دو ۔ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ : اگر تم دل سے ایمان لائے ہو تو اللہ کے حکم کی تعمیل کرو اللہ کے احکام کی پابندی صدق ایمان کی دلیل ہے۔ ابن جریر ؓ نے عکرمہ کا قول نقل کیا ہے کہ اس آیت کا نزول قبیلۂ ثقیف کے چار بھائیوں کے متعلق ہوا مسعود، عبد یا لیل، حبیب، ربیعہ۔ یہ چاروں عمرو بن عمیر کے بیٹے تھے۔ مقاتل نے بھی یہی بیان کیا لیکن بغوی نے سدی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ آیت مذکورہ کا نزول حضرت عباس ؓ اور حضرت خالد بن ولید کے حق میں ہوا یہ دونوں حضرات دور جاہلیت میں قبیلہ ثقیف کے بنی عمرو بن عمیرکو سودی قرض دیا کرتے تھے اور دونوں اس کاروبار میں شریک تھے اسلام آیا تو اس وقت ان کا بڑا سودی روپیہ لوگوں پر تھا انہی کے متعلق اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی چناچہ حج و داع میں عرفہ کے دن رسول اللہ نے اپنے خطبہ میں فرمایا : خوب سن لو جاہلیت کی ہر چیز میرے پاؤں کے نیچے (پامال ہوچکی) ہے جاہلیت کے خون ساقط کردیئے گئے (اب ان کا باہمی قصاص نہ ہوگا) اپنے خونوں میں سے سب سے پہلا خون میں ربیعہ بن حارث کا ساقط کرتا ہوں۔ ربیعہ بنی حارث کے قبیلہ کے شیر خوار تھے بنو ہزیل نے ان کو قتل کردیا تھا۔ جاہلیت کا سود (بھی) ساقط کردیا گیا ہے سب سے پہلے میں عباس ؓ بن عبد المطلب کا سود ساقط کرتا ہوں عباس ؓ کا سب سود چھوڑ دیا گیا۔ حج و داع میں بروز عرفہ رسول اللہ نے جو خطبہ دیا اس کے الفاظ بروایت حضرت جابر ؓ نے اسی طرح نقل کیے ہیں لیکن اس میں یہ نہیں ذکر کیا کہ آیت مذکورہ کا نزول اس بارے میں ہوا تھا۔ بغوی (رح) نے بحوالۂ عکرمہ وعطاء بیان کیا ہے کہ حضرت عباس بن عبد المطلب اور حضرت عثمان بن عفان ؓ نے کچھ چھوارے بطور سلم خریدے تھے۔ فصل ٹوٹنے کا زمانہ آیا تو چھوارے والے نے کہا اگر آپ لوگ اپنے پورا حق لے لیں گے تو میرے بچوں کی ضرورت کے لیے کچھ نہیں بچے گا اس لیے مناسب ہے کہ آپ آدھا واجب الادا حق اس وقت لے لیجئے اور باقی کے لیے مدت مقرر کردیجئے میں آپ کو دو گنا کرکے دیدوں گا۔ دونوں حضرات اس تجویز پر راضی ہوگئے جب مدت مقررہ گذری اور وقت ادا آگیا تو (حسب وعدہ) زیادتی کا مطالبہ کیا اس کی اطلاع رسول اللہ کو ہوئی تو آپ نے دونوں کو ممانعت فرمادی اور اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی دونوں بزرگوں نے حکم کی تعمیل کی اور اپنا اصل مال لے لیا (سود چھوڑ دیا ) ۔
Top