Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 187
اُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآئِكُمْ١ؕ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ١ؕ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَیْكُمْ وَ عَفَا عَنْكُمْ١ۚ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْهُنَّ وَ ابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ١۪ وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ١۪ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَى الَّیْلِ١ۚ وَ لَا تُبَاشِرُوْهُنَّ وَ اَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ١ۙ فِی الْمَسٰجِدِ١ؕ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَقْرَبُوْهَا١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ اٰیٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
اُحِلَّ : جائز کردیا گیا لَكُمْ : تمہارے لیے لَيْلَةَ : رات الصِّيَامِ : روزہ الرَّفَثُ : بےپردہ ہونا اِلٰى : طرف (سے) نِسَآئِكُمْ : اپنی عورتوں سے بےپردہ ہونا ھُنَّ : وہ لِبَاسٌ : لباس لَّكُمْ : تمہارے لیے وَاَنْتُمْ : اور تم لِبَاسٌ : لباس لَّهُنَّ : ان کے لیے عَلِمَ : جان لیا اللّٰهُ : اللہ اَنَّكُمْ : کہ تم كُنْتُمْ : تم تھے تَخْتَانُوْنَ : خیانت کرتے اَنْفُسَكُمْ : اپنے تئیں فَتَابَ : سو معاف کردیا عَلَيْكُمْ : تم کو وَعَفَا : اور در گزر کی عَنْكُمْ : تم سے فَالْئٰنَ : پس اب بَاشِرُوْھُنَّ : ان سے ملو وَابْتَغُوْا : اور طلب کرو مَا كَتَبَ : جو لکھ دیا اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے وَكُلُوْا : اور کھاؤ وَاشْرَبُوْا : اور پیو حَتّٰى : یہاں تک کہ يَتَبَيَّنَ : واضح ہوجائے لَكُمُ : تمہارے لیے الْخَيْطُ : دھاری الْاَبْيَضُ : سفید مِنَ : سے لْخَيْطِ : دھاری الْاَسْوَدِ : سیاہ مِنَ : سے الْفَجْرِ : فجر ثُمَّ : پھر اَتِمُّوا : تم پورا کرو الصِّيَامَ : روزہ اِلَى : تک الَّيْلِ : رات وَلَا : اور نہ تُبَاشِرُوْھُنَّ : ان سے ملو وَاَنْتُمْ : جبکہ تم عٰكِفُوْنَ : اعتکاف کرنیوالے فِي الْمَسٰجِدِ : مسجدوں میں تِلْكَ : یہ حُدُوْدُ : حدیں اللّٰهِ : اللہ فَلَا : پس نہ تَقْرَبُوْھَا : اس کے قریب جاؤ كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ : واضح کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ اٰيٰتِهٖ : اپنے حکم لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَّقُوْنَ : پرہیزگار ہوجائیں
روزوں کی راتوں میں تمہارے لئے اپنی عورتوں کے پاس جانا کردیا گیا ہے وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو خدا کو معلوم ہے کہ تم (ان کے پاس جانے سے) اپنے حق میں خیانت کرتے تھے سو اس نے تم پر مہربانی کی اور تمہاری حرکات سےدرگزرفرمائی۔اب (تم کو اختیار ہے کہ) ان سے مباشرت کرو۔ اور خدا نے جو چیز تمہارے لئے لکھ رکھی ہے (یعنی اولاد) اس کو (خدا سے) طلب کرو اور کھاؤ پیو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے۔ پھر روزہ (رکھ کر) رات تک پورا کرو اور جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو ان سے مباشرت نہ کرو۔ یہ خدا کی حدیں ہیں ان کے پاس نہ جانا۔ اسی طرح خدا اپنی آیتیں لوگوں کے (سمجھانے کے) لئے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ وہ پرہیزگار بنیں
اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَام الرَّفَثُ اِلٰى نِسَاۗىِٕكُمْ ( جائز کردیا گیا تمہارے لیے روزوں کی راتوں میں پاس جانا اپنی بیبیوں کے) لفظ رفث جماع سے کنایہ ہے۔ زجاج نے کہا ہے کہ رفث ایک لفظ جامع ہے جس قسم کا مرد عورتوں سے فائدہ اٹھائیں سب کو شامل ہے اور رفث کو الیٰ سے اس لیے متعدی کیا ہے کہ اس لفظ کے اندرافضا (جماع) کا مضمون ہے اور افضا کا صلہ الٰہی آتا ہے) امام احمد اور ابو داؤد اور حاکم نے عبد الرحمان بن ابی لیلیٰ سے انہوں نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کی ہے کہ ابتدا اسلام میں لوگ اوّل شب میں سونے تک کھاتے پیتے تھے عورتوں سے جماع کرتے تھے اور سونے کے بعد سے پھر صبح تک سب چیزوں سے باز رہتے تھے ایک مرتبہ ایسا قصہ ہوا کہ ایک شخص انصاری حرمہ نام نے عشاء کی نماز پڑھی پھر بغیر کچھ کھائے پیئے سو رہے صبح کو یہ حالت ہوئی کہ بھوک پیاس کی بہت شدت تھی اور ایک مرتبہ عمر ؓ کی بھی یہ کیفیت ہوئی کہ بعد سونے کے بی بی سے صحبت کر بیٹھے یہ قصہ جناب رسول اللہ سے عرض کیا اللہ تعالیٰ نے اسی وقت آیت : احل لکم الخ نازل فرمائی یہ حدیث ابن ابی لیلی سے مشہور ہے اور ابن ابی لیلیٰ نے حضرت معاذ ؓ سے نہیں سنا لیکن اس حدیث کے اور بہت سے شواہد ہے۔ امام بخاری (رح) نے حضرت براء ؓ سے روایت کی ہے کہ اصحاب رسول اللہ کی یہ حالت تھی کہ جب کوئی شخص روزہ رکھتا تھا اور افطار کا وقت آجاتا تھا اور روزہ افطار کرنے سے پہلے ہی سو جاتا تھا تو پھر وہ نہ اس رات کو کھاتا پیتا تھا اور نہ اگلے روز شام تک کچھ کھاتا پیتا تھا ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ قیس بن صرمہ انصاری ؓ روزہ دار تھے جب افطار کا وقت ہوا تو اپنی زوجہ سے پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ کھانا ہے اس نے کہا موجود تو نہیں لیکن تمہارے واسطے کہیں سے لاتی ہوں یہ تمام دن تو کام کاج کرتے تھے اس کے جاتے ہی نیند غالب ہوئی سو رہے جب وہ آئی تو ان کو سوتے دیکھ کر بولی۔ بد قسمتی اس کے بعد تو کھا ہی نہیں سکتے تھے۔ دوسرے دن جب دوپہر ہونے آئی تو ضعف کی وجہ سے ان پر غشی طاری ہوگئی یہ قصہ جناب رسول اللہ کے سامنے پیش ہوا اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ بخاری نے حضرت براء ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو لوگ تمام رمضان عورتوں کے پاس نہ جاتے تھے اتفاقاً چند آدمی اپنی بیبیوں سے صحبت کر بیٹھے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت : علم اللہ انکم الخ نازل فرمائی اور امام احمد اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے عبد اللہ بن کعب کے طریق سے ان کے باپ سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ رمضان میں لوگوں کی یہ حالت تھی کہ جب کوئی شخص شام کو سو رہتا تھا تو اس پر کھانا پینا اور عورتوں کے پاس جانا سب حرام ہوجاتا تھا دوسرے دن افطار تک حرام رہتا تھا ایک روز رات کو حضرت عمر کو جناب رسول ﷺ اللہ کی خدمت اقدس میں باتوں میں دیر ہوگئی جب وہاں سے تشریف لائے تو بی بی سے مشعول ہونے کا ارادہ فرمایا انہوں نے عذر کیا کہ میں سو گئی تھی حصرت عمر ؓ نے فرمایا کہ میں تو نہیں سویا یہ کہہ کر مشغول ہوگئے اور یہی فعل کعب بن مالک ؓ سے ہوگیا صبح کو عمر ؓ نے یہ واقعہ جناب رسول ﷺ اللہ کی خدمت میں عرض کیا۔ اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی اور علامہ بغوی نے فرمایا ہے کہ ابتداء اسلام میں جب آدمی عشاء کی نماز پڑھ لیتا تھا یا اس سے پہلے سو رہتا تھا تو اس پر کھانا پینا جماع اگلی رات تک سب حرام ہوجاتا تھا اور عمر ؓ بعد نماز عشاء کے اپنی بی بی سے صحبت کر بیٹھے پھر رسول ﷺ اللہ سے عذر کیا نبی ﷺ نے فرمایا کہ اے عمر تم کو یہ بات لائق نہ تھی پھر اور بھی چند آدمی کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھی اپنا اسی قسم کا واقعہ بیان کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ( وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس 1 ؂) ترکیب لغوی کے اعتبار سے یہ آیت ایک سوال مقدر کا جواب ہے گویا کوئی سوال کرتا تھا کہ روزوں کی رات میں جماع کے حلال ہونے کی کیا وجہ ہے تو اس کا سبب ارشاد ہوتا ہے کہ تم کو عورتوں سے صبر نہیں ہوسکتا اور کثرت میل جول اور شدت تعلق کی وجہ سے ایسی حالت ہوگئی جیسے ایک دوسرے کا لباس ہو احتراز مشکل تھا اس لیے روزوں کی رات میں جماع حلال کردیا گیا چونکہ مرد اور عورت آپس میں ایک دوسرے سے لپٹتے ہیں اور ہر ایک دوسرے پر مثل لباس کے مشتمل ہوجاتا ہے اس لیے مرد اور عورت دونوں کو ایک دوسرے کے لباس سے تشبیہ دی اور یا اس لیے کہ لباس جس طرح لابس ( پہننے والے) کو چھپا لیتا ہے اسی طرح مرد اور عورت ایک دوسرے کو حرام سے چھپا تا اور روکتا ہے چناچہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جس نے نکاح کرلیا اس نے دو تہائی دین جمع کرلیا۔ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ ( اللہ نے معلوم کیا کہ تم چوری سے اپنے نقصان کرتے تھے) یعنی بعد عشاء یا بعد سو رہنے کے مجامعت کرکے اپنی جانوں کو عقاب اور سزا کے مقام میں لا کر ان پر ظلم کرتے تھے اور ثواب کا حصہ کم کرتے تھے اختیان میں خیانت سے زیادہ مبالغہ ہے۔ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ( سو اس نے معاف کیا تم کو) یعنی جب تم نے توبہ کرلی تو اللہ تعالیٰ نے بھی معاف کردیا۔ وَعَفَا عَنْكُمْ ( اور درگذر کی تم سے) یعنی تمہارے گناہوں کو محو فرما دیا۔ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ ( پس اب تم ان سے ہم بستر ہو) یعنی اب حلال طور سے مجامعت کرو مباشرت بول کر صحبت مراد لی ہے۔ وَابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ ۠ ( اور چاہو جو اللہ نے لکھ دیا تمہارے لیے) یعنی جو تمہاری قسمت میں اولاد اللہ تعالیٰ نے لکھ دی ہے وہ بذریعہ صحبت کے طلب کرو۔ یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ جب کوئی شخص اپنی عورت سے مجامعت کرے تو مناسب یہ ہے کہ مجامعت سے اولاد کی نیت کرے صرف اپنی خواہش ہی پوری کرنے کا ارادہ نہ کرے چناچہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ ایسی عورت سے نکاح کر جو خاوند کو دوست رکھنے والی ہو اور خوب جننے والی ہو کیونکہ میں تمہاری کثرت پر اور امتوں کے سامنے فخر کروں گا۔ اس حدیث کو ابو داؤد اور نسائی نے معقل بن یسار سے روایت کیا ہے اور اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عزل 2 ؂ مکروہ ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جماع بچہ پیدا ہونے کی جگہ ہی میں مباح ہے۔ صاحب معالم التنزیل ‘ علامہ بغوی نے فرمایا ہے کہ حضرت معاذ بن جبل ؓ فرماتے ہیں کہ ما کتب اللہ سے مراد لیلۃ القدر ہے میں کہتا ہوں کہ یہ معنی سیاق آیت سے بعید ہیں۔ وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۠ ( اور کھاتے پینے رہو یہاں تک کہ صاف نظر آنے لگے تمہیں صبح کی سفید دھاری کالی دھاری سے) خیط ابیض سے دن کی روشنی اور خیط اسود سے رات کی سیاہی مراد ہے اور خیط ( دھاگا) اس لیے فرمایا کہ جب صبح ابتداً ظاہر ہوتی ہے تو جنوب سے شمال کو مثل دھاگے کے کھینچ جاتی ہے اور من الفجر من الخیط الابیض سے حال اور اس کا بیان ہے اور خیط اسود کا بیان اس لیے نہیں لائے کہ جب خیط ابیض سے مراد فجر ہوئی تو خیط اسود سے رات مراد ہونا خود ہی سمجھ میں آجائے گا اور من الفجر میں من یا تو تبعیض کے لیے ہے اس تقدیر پر تو یہ معنی ہوں گے کہ اس حال میں کہ وہ خیط ابیض خود فجرکا حصہ ہو اور صراحتاً حتی یتبین الفجر (یہاں تک کہ صبح صاف ظاہر ہوجائے) اس لیے نہیں فرمایا تاکہ معلوم ہوجائے کہ ادنیٰ حصہ بھی ظاہر ہوتے ہی کھانا پیناحرام ہوجاتا ہے اور بغیر ذکر من الخیط الاسود کے اس طرح بھی نہ فرمایا : حتیٰ یتبین لکم الخیط الابیض من الفجر (یہاں تک کہ سفید دھاری صبح کی تم کو صاف ظاہر ہوجائے۔ ) اس واسطے کہ یہ معلوم ہوجائے کہ فجر سے مراد صبح صادق ہے کیونکہ صبح صادق ایک سفید دھاری جنوب سے شمال کو پھیلی ہوئی ہوتی ہے اور اس کے متصل ہی اس سے قبل ایک سیاہ دھاری ہوتی ہے جو غربی جانب پھیلی ہوئی ہوتی ہے اور وہ رات کی سیاہی کا ایک حصہ ہوتی ہے بخلاف فجر کاذب کے کہ وہ بھی ایک سفید دھاری لیکن لمبی شرق و غرب کو ہوتی ہے کہ اس کے بعد تاریکی تمام اطراف کا احاطہ کرلیتی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ من الفجر الخیط الاسود اور الخیط الابیض دونوں کا بیان ہو کیونکہ فجر میں دونوں باتیں ہوتی ہیں تاریکی بھی ہوتی ہے اور روشنی بھی اور یہ ترکیب اولیٰ ہے کیونکہ اس صورت میں حال اور ذوالحال میں اجنبی سے فصل لازم نہ آئے گا۔ وا اللہ اعلم سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ اے لوگو ! بلال کی اذان اور فجر طویل ( یعنی صبح کاذب) کے سبب سے تم سحری کھانے سے مت رکا کرو بلکہ اس فجر سے رکا کرو جو افق میں پھیل جاتی ہے۔ ( یعنی صبح صادق) اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ ( اے لوگو) بلال رات سے ہی اذان دیتے ہیں تو تم ابن ام مکتوم کے اذان دینے تک کھاتے پیتے رہا کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ ابن ام مکتوم ؓ اندھے آدمی تھے اور اذان اس وقت دیتے تھے کہ جب ان سے کئی مرتبہ کہا جاتا تھا کہ صبح ہوگی۔ اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت علی ؓ سے ثابت ہے کہ انہوں نے صبح کی نماز پڑھ کر فرمایا کہ اب سفید دھاری کالی دھاری سے متمیز ہوئی ہے اس روایت کو ابن منذر نے روایت کیا ہے اور اسی طرح ابن منذر نے بسند صحیح حضرت ابوبکر صدیق سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ اگر کھانے کی رغبت اور حرص نہ ہوتی تو میں صبح کی نماز پڑھ کر سحری کھایا کرتا اور ابن منذر اور ابن ابی شیبہ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے امر فرمایا کہ دروازہ فجر کے دکھائی دینے تک بند رہے۔ پس یہ سب آثار اس پر صاف دال ہیں کہ صبح کے پھیل جانے کے بعد کھانا جائز ہے۔ اب ان اقوال کی کیا توجیہ ہوگی۔ میں کہتا ہوں کہ غیب کی خبر تو اللہ جانے بظاہر ان اقوال کی یہ وجہ معلوم ہوتی ہے کہ ابوبکر اور علی ؓ نے یہ سمجھا ہوگا کہ من الفجر میں من سببیہ ہے اور خیط سے حقیقی معنی (دھاگا) مراد ہیں حالانکہ حدیث سے ثابت ہے کہ من الفجر میں من بیانیہ ہے اور خیط ابیض سے مراد صبح ہے اور اسی پر اجماع ہے عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے کہ جب آیت : حتی یتیبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود نازل ہوئی تو میں نے ایک سیاہ دھاگا اور ایک سپید لیا اور ان کو اپنے تکیہ کے نیچے رکھ لیا اور رات کو ان کو دیکھا تو مجھ کو دونوں میں کچھ فرق نہ معلوم ہوا صبح کو میں جناب رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کا ذکر کیا آپ نے فرمایا کہ اس سے تورات کی سیاہی اور دن کی سپیدی مراد ہے اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے اور ایک روایت میں ہے کہ پھر آپ نے فرمایا کہ تو عریض القضا (کم عقل) ہے یہ تو دن کی سپیدی اور ات کی سیاہی ہے۔ سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ جب : کلوا واشربوا حتی یتبین لکم الخیط الابیض منالخیط الاسود نازل ہوئی اور اس وقت تک من الفجر نازل نہ ہوا تھا تو بہت سے آدمی یہ کرتے تھے کہ جب روزہ رکھنے کا ارادہ کرتے تو اپنے دونوں پاؤں میں سپید اور سیاہ دھاگا باندھ لیتے اور کھاتے رہتے جب وہ دونوں صاف نظر آنے لگتے اس وقت کھانے پینے سے رکتے جب اللہ تعالیٰ نے من الفجرنازل فرمایا تو انہوں نے جانا کہخیط ابیض اور خیط اسود سے دن اور رات مراد ہیں۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے اگر کوئی یہ کہے کہ سہل بن سعد کی حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ من الفجر آیت سے ایک زمانہ کے بعد نازل ہوئی ہے اگر یہ صحیح ہے تو یہ اشکال لازم آتا ہے کہ بیان اپنے مبین سے وقت حاجت سے مؤخر ہو اور یہ جائز نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ خیط ابیض اور اسود کا استعمال دن کی روشنی اور رات کی تاریکی میں شائع وذائع تھا بیان کرنے کی حاجت نہ تھی اور اگر بالفرض بعض لوگوں پر تامل و تدبر نہ کرنے کی وجہ سے پوشیدہ بھی ہو تو پھر بھی یہ مجمل کی قسم سے نہ ہوگا بلکہ اس کو مشکل کہا جائے گا اور مشکل ( اصطلاح میں) اس لفظ کو کہتے ہیں کہ متکلم کو جو کچھ اس سے مقصود ہے اس میں صیغہ کی رو سے یا استعمال مجاز سے خفا آجائے اور وہ خفا ایسا ہو کہ تامل اور طلب سے زائل ہوجاتا ہے اب اس تقدیر پر لفظ من الفجرصرف اس لیے نازل فرمایا تاکہ اور زیادہ وضوح ہوجائے اور جو لوگ کوتاہ فہم ہیں وہ محفوظ کرلیں اور ان کو طلب و تامل کی ضرورت نہ رہے اور باب مجمل سے نہ ہوگا کہ جس کے معنی بغیر شارع کے بتائے سمجھ میں نہ آئیں۔ اس لفظ کے نزول میں دیر ہونے سے کسی قسم کا اشکال نہ رہا اور اگر بالفرض اس کا مجمل ہونا تسلیم بھی کرلیا جائے تو کیا عجب ہے کہ اس کا بیان شارع کی طرف سے وحی غیرتلاوت شدہ میں آچکا ہو اور حدیث سے ثابت ہو ( چناچہ عدی بن حاتم ؓ کی حدیث اس پر دال ہے اور اسکے بعد تائید اور تاکید کے طور پر من الفجر نازل ہوا ہو۔ امام طحاوی فرماتے ہیں کہ خیط اسود اور خیط ابیض سے ان کے ظاہری معنی مراد ہیں اور من الفجر اس کا ناسخ ہے اور طحاوی (رح) کے اس قول کی حضرت حذیفہ ؓ کی حدیث ذیل تائید کرتی ہے فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ کے ساتھ بالکل دن نکلے سحری کھائی اتنی بات تھی کہ سورج نکلا نہ تھا۔ ورنہ بالکل روشنی تھی اس حدیث کو سعید بن منصور نیروایت کیا ہے پس کیا بعید ہے کہ حضرت حذیفہ ؓ نے جناب سرور کائنات ﷺ کے ساتھ من الفجر کے نزول سے پہلے سحری کھائی ہو۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ لفظ من الفجر مستقل کلام نہیں اور ناسخ کلام مستقل ہوتا ہے تو من الفجر کیسے ناسخ بن سکتا ہے اور اگر اس کو نزول میں متاخر مانا جائے تو پھر کلام سابق کا مخصص بھی نہیں بن سکتا کیونکہ قصر اور تخصیص کے لیے یہ ضروری ہے کہ ماقبل سے متصل ہو تو جب نہ ناسخ بن سکتا ہے اور نہ مخصص تو اس کی کیا توجیہ ہے۔ اس اشکال کا جواب میرے نزدیک یہ ہے کہ اوّل پوری آیت بغیر لفظ من الفجر کے نازل ہوئی پھر ایک مدت کے بعد یہی آیت دوسری مرتبہ قید من الفجر کے ساتھ اتری اس لیے پہلی آیت کی باعتبار حکم اور تلاوت کے ناسخ بن گئی ‘ وا اللہ اعلم۔ فائدہ عدی بن حاتم ؓ کا قصہ من الفجر کے نازل ہونے کے بعد ہوا ہے کیونکہ عدی بن حاتم ؓ 9 ھ میں اسلام لائے ہیں اور روزہ کی آیت 2 ھ میں نازل ہوئی ہے اور لفظ من الفجر اس کے تقریباً ایک سال بعد نازل ہوا تھا۔ پس عدی بن حاتم ؓ ؓ نے جو دو دھاگے تکیہ کے نیچے رکھ لیے تھے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے من الفجر میں من کو سببیہ کے لیے سمجھا تھا وا اللہ اعلم۔ فائدہ جماع کو فجر تک جائز رکھنے سے یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ جنبی کو صبح کے بعد بھی غسل کرنا جائز ہے اور نیز یہ کہ کوئی اگر صبح تک جناب کی حالت میں رہاتو اس کا روزہ بالاتفاق صحیح ہے۔ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيْلِ ( پھر پورا کرو روزہ کو رات تک) یہ آیت روزہ کے آخر وقت کا بیان ہے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ جب رات کی سیاہی اس طرف چھا جائے اور دن اس طرف منہ پھیرے اور آفتاب غروب ہوجائے تو یہ وقت افطار کا ہے اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے اس آیت سے معلوم ہوا کہ روزہ کی حقیقت کھانے پینے اور جماع سے صبح صادق سے غروب آفتاب تک نیت کے ساتھ رکنا ہے اور نیت کا وجوب لفظ ثم اتموا سے صاف ظاہر ہے کیونکہ اتمام ( پورا کرنا) فعل اختیاری ہے یا یہ کہا جائے کہ روزہ جب عبادت ہے تو اس کے لیے نیت بھی ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : وَ مَا اُمِرُوا اِلَّا لیعبدوا اللہ مخلصین لہ الدین یعنی اور ان کو یہی حکم دیا گیا کہ اللہ کی عبادت کریں خالص اسی کی عبادت سمجھ کر اور رسول اللہ فرماتے ہیں کہ اعمال کا مدار نیت پر ہے اور آدمی کو وہی ملتا ہے جو اسکی نیت ہے اس لیے جس شخص کی نیت اللہ و رسول کی طرف ہجرت کرنے کی ہے اس کو اسی کا ثمرہ ملے گا اور جس کی ہجرت دنیا کی طرف ہے کہ دنیا ملے یا کسی عورت سے نکاح کرے تو اس کو اس کا پھل ملے گا۔ اس حدیث کو تمام محدثین نے سوائے امام مالک (رح) کے روایت کیا ہے لیکن امام مالک (رح) سے بھی بخاری نے روایت کیا ہے اور یہ حدیث معنی کے اعتبار سے متواتر ہے اور تمام امت محمدیہ نے اس کو قبول کیا ہے اور اس پر سب علماء کا اتفاق ہے کہ ہر عبادت مقصودہ بغیر نیت کے صحیح نہیں اس قاعدہ کا مقتضی یہ تھا کہ نیت پوری عبادت میں شرط ہے لیکن حرج اور تنگی کی وجہ سے یہ تمام اوقات میں ساقط ہوگئی نماز میں تو نیت اوّل جزو یعنی تکبیر تحریمہ کے مقارن ہونا شرط ہوگئی اور دیگر اجزاء میں حکماً اعتبار کرلی جائے گی اور روزہ کے جزو اوّل میں بھی یہ شرط نہیں کیونکہ روزہ کا جزو اوّل طلوع فجر کے وقت ہے اور یہی وقت اکثر غفلت اور سونے کا ہے اس لیے روزہ میں شروع سے پہلے کی نیت بھی کافی ہے اور باقی وقت میں جب تک اس نیت کو توڑے نہیں اعتبار کرلی جائے گی۔ اس میں اختلاف ہے کہ آیا بعد طلوع فجر کے اگر نیت کرے تو روزہ ہوجائے گا یا نہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) تو یہ فرماتے ہیں کہ اگر شرعی دن کے نصف سے پہلے پہلے نیت کرلے تو رمضان اور نذر معین اور نفل کے روزے صحیح ہوجائیں گے اور امام شافعی اور احمد (رح) فرماتے ہیں کہ اگر زوال سے پہلے نیت کرلے تو نفل روزہ صرف صحیح ہے اور روزے صحیح نہ ہوں گے اور امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ کوئی روزہ دن کی نیت سے صحیح نہ ہوگا اور حضرت حفصہ ؓ کی حدیث امام مالک ؓ کی مؤید ہے وہ فرماتی ہیں کہ جناب رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ جو شخص طلوع فجر سے پہلے روزے کا عزم نہ کرے اس کا روزہ نہیں۔ اس حدیث کو امام احمد اور ابو داؤد اور ترمذی اور نسائی اور ابن خزیمہ اور ابن ماجہ اور دار قطنی اور دارمی نے روایت کیا ہے اور ایک روایت میں یہ مضمون ہے کہ جس شخص نے رات سے روزہ کا قطعی ارادہ نہ کیا اس کا روزہ نہیں اور ایک روایت میں ہے کہ جس نے اپنا روزہ فجر سے پہلے نہ ثابت کرلیا اس کا روزہ نہیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اس حدیث کی نسبت ابو داؤد نے کہا ہے کہ اس حدیث کو مرفوع ہونا صحیح نہیں اور ترمذی نے کہا ہے کہ اس حدیث کا موقوف ہونا صحیح تر ہے تو ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ ابن جریج اور عبد اللہ بن ابی بکر نے اس کو مرفوع کہا ہے یہ دونوں اس حدیث کو زہری سے اور زہری سالم سے اور سالم اپنے باپ سے اور وہ ام المؤمنین حضرت حفصہ ؓ سے اور وہ حضور ﷺ سے روایت کرتی ہیں اور ابن جریج اور عبد اللہ بن ابی بکر دونوں ثقہ ہیں اور مرفوع کہنا اس حدیث کا زیادتی ہے اور زیادتی ثقہ کی مقبول ہوا کرتی ہے اور محدثین کی عادت ہے کہ موقوف اور مرسل دونوں کو موقوف کہتے ہیں اور موقوف کا اصح ہونا مرفوع کے صحیح ہونے کے منافی نہیں اور حاکم نے اس حدیث کے مرفوع ہونے کی صورت میں کہا ہے کہ یہ حدیث شرط شیخین پر صحیح ہے اور مستدرک میں کہا ہے کہ شرط بخاری پر صحیح ہے اور بیہقی اور دار قطنی نے کہا ہے کہ اس حدیث کے راوی سب ثقہ ہیں۔ اور اسی مضمون کی حدیث ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے منقول ہے وہ فرماتی ہیں کہ جس شخص نے روزہ کو قبول از فجر ثابت نہ کیا اس کا روزہ نہیں اس حدیث کو دار قطنی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے راوی ثقہ ہیں لیکن اس کی سند میں ایک راوی عبد اللہ بن عباس ہے۔ ابن حبان (رح) نے اس کو ضعیف راویوں میں شمار کیا ہے اور ایک یحییٰ بن ایوب ہیں وہ بھی کچھ قوی نہیں۔ اور میمونہ بنت سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ جس نے رات سے ٹھان لیا کہ کل کو روزہ رکھوں گا تو اس کو رکھنا چاہئے اور جس نے صبح تک عزم نہ کیا ہو اس کو روزہ نہ رکھنا چاہیے۔ اس کو دار قطنی نے روایت کیا ہے لیکن اس کی سند میں واقدی راوی کچھ نہیں۔ اور جو لوگ نفل روزہ کے لیے دن کو نیت کرلینا کافی سمجھتے ہیں انکی دلیل حضرت عائشہ ؓ کی حدیث ہے وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ جب میرے پاس تشریف لاتے تو فرماتے کہ تمہارے پاس کچھ کھانا ہے جب ہم کہہ دیتے کہ نہیں ہے تو فرماتے کہ بس تو میں روزہ دار ہوں۔ ایک روز کا قصہ ہے کہ آپ تشریف لائے میں نے عرض کیا یا رسول ﷺ اللہ ہمارے پاس کچھ حیس (کھجوریں اور گھی و مسکہ وغیرہ سے مرکب کرکے ایک کھانا بنایا جاتا ہے) ہدیہ میں آیا ہے فرمایا کہ لاؤ اور صبح سے تو میں روزہ دار تھا اور مسلم کی روایت میں یہ مضمون ہے کہ حضور ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کچھ ہے میں نے عرض کیا کہ ہمارے پاس کچھ نہیں فرمایا کہ بس تو میں روزہ دار ہوں یہ کہہ کر حضور باہر تشریف لے گئے اس کے بعد ہمارے پاس کچھ ہدیہ آیا جب پھر گھر میں جناب رسول ﷺ اللہ تشریف لائے تو میں نے عرض کیا یا رسول ﷺ اللہ ہمارے پاس کچھ ہدیہ آیا ہے فرمایا کیا ہے میں نے عرض کیا حیس ہے فرمایا لاؤ میں لائی تو حضور نے نوش فرمایا پھر فرمایا کہ صبح سے تو میں روزہ دار تھا اس حدیث کا مالکیہ یہ جواب دیتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جناب رسول ﷺ اللہ نے دن کو روزہ کی نیت کی اور رات سے نیت روزہ کی نہیں تھی بلکہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضور صبح سے روزہ دار تھے اور رات سے نیت روزہ کی آپ نے فرمائی تھی پھر اپنی زوجہ مطہرہ کے پاس تشریف لائے تھے اور روزہ نفل کو توڑ دیا تھا چناچہ مضمون صبح سے میں روزہ دار تھا “ اس پر صاف دال ہے۔ وَلَا تُـبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ ۙ فِي الْمَسٰجِدِ ( اور نہ ہم بستر ہونا ان سے جس حالت میں کہ تم اعتکاف میں بیٹھے ہو مسجدوں میں) عکوف کے معنی لغت میں کسی شے پر اقامت کرنے اور ٹھہرنے کے ہیں اور اصطلاح اہل شرع میں اعتکاف مسجد میں نیت کے ساتھ اللہ کی عبادت پر ٹھہرنے اور اقامت کرنے کو کہتے ہیں۔ علامہ بغوی نے فرمایا ہے کہ یہ آیت چند صحابہ ؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے وہ مسجد میں اعتکاف کرتے تھے جب کسی کو ان میں اپنی زوجہ کے پاس جانے کی ضرورت ہوتی تو اعتکاف سے نکل کر اس سے صحبت کرلیتے اور پھر غسل کرکے مسجد میں آجاتے تھے پھر اس آیت سے رات اور دن دونوں میں اعتکاف سے فارغ ہونے تک عورت کے پاس جانا حرام ہوگیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جماع سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے اور سب کے نزدیک اعتکاف میں جماع حرام ہے لیکن شافعی ؓ فرماتے ہیں کہ اگر بھول کر جماع کرلیا تو جیسے روزہ نہیں فاسد ہوتا اسی طرح اعتکاف بھی فاسد نہیں ہوتا۔ ہم کہتے ہیں کہ اعتکاف اور روزہ فرق ہے اعتکاف کی حالت تو خود اعتکاف کو یاد لانے والی ہے بخلاف روزہ کے کہ روزہ میں کوئی ایسی حالت جدیدہ نہیں ظاہر ہوتی کہ جس سے روزہ یا در ہے اور حسن بصری (رح) اور زہری (رح) سے منقول ہے کہ جو اعتکاف میں اپنی زوجہ سے جماع کرے تو اس پر کفارہ لازم ہے اور کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے لیکن سب علماء کا اس پر اجماع ہے کہ کفارہ نہیں ہے اور اگر شہوت سے بوسہ لیا یا چھوا اور انزال ہوگیا تو سب کے نزدیک اعتکاف باطل ہوگیا اور اگر انزال نہیں ہوا تو فعل حرام ہوا لیکن اعتکاف فاسد نہیں ہوا لیکن امام مالک کے نزدیک اس صورت میں اعتکاف باطل ہوجائے گا اور چھونے سے لذت حاصل کرنا مقصود نہ ہو تو اس میں کچھ حرج نہیں چناچہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب جناب رسول اللہ اعتکاف فرمایا کرتے تھے تو اپنا سر مبارک میرے قریب فرما دیتے تھے میں کنگھی کردیتی تھی۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے مسلم کی روایت میں اتنازیادہ ہے کہ حضور گھر میں حاجت انسانی کے سوا اور کسی شے کے لیے تشریف نہ لے جاتے تھے اور : و انتم عاکفون فی المساجد ( اور تم اعتکاف کرنے والے ہومسجدوں میں) سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اعتکاف سوائے مسجد کے اور جگہ صحیح نہ ہوگا اور مسجد سے مراد وہ مسجد ہے جس میں جماعت ہوتی ہو گھر کی مسجد مراد نہیں اور المساجد کا اطلاق یہ بتارہا ہے کہ اعتکاف ہر مسجد میں درست ہے مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ اور مسجد نبی ﷺ اور مسجد جمعہ کی کوئی خصوصیت نہیں اور حزیفہ ؓ سے مروی ہے کہ مساجد مذکورہ میں صحیح ہوگا دوسری مسجد میں درست نہیں اور عطا فرماتے ہیں کہ مسجد مکہ میں جائز ہوسکتا ہے اور ابن مسیب ؓ مسجد مدینہ میں حصر کے قائل ہیں اور امام مالک کے نزدیک مسجدجمعہ میں صحیح ہے اور امام شافعی (رح) کے بھی پہلے قول میں اسی طرف اشارہ ہے کہ مسجد جمعہ میں اعتکاف درست ہے اور دوسری مسجد میں مشروع نہیں۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ بغض اور عداوت کی چیز بدعات ہیں اور یہ بھی بدعات میں سے ہے کہ گھروں کی مسجدوں میں اعتکاف کیا جائے۔ اس حدیث کو بیہقی نے روایت کیا ہے اور علی ؓ فرماتے ہیں کہ اعتکاف سوائے مسجد جماعت کے اور مسجد میں صحیح نہیں اس کو ابن ابی شیبہ اور عبد الرزاق نے اپنی اپنی مصنف میں لکھا ہے اور حذیفہ ؓ فرماتے ہیں کہ لوگو سنو میں یہ امر خوب جانتا ہوں کہ مسجد جماعت کے سوا اور جگہ اعتکاف درست نہیں اس حدیث کو طبرانی نے روایت کیا ہے اور ابن جوزی نے حذیفہ ؓ سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ جس مسجد میں امام اور مؤذن ہے اس میں اعتکاف صحیح ہے ابن جوزی کہتے ہیں کہ یہ حدیث نہایت ضعیف ہے اور حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ معتکف کو چاہئے کہ کسی مریض کی عیادت نہ کرے اور نہ کسی جنازہ پر حاضر ہو اور نہ عورت کو ہاتھ لگائے اور نہ صحبت کرے اور سوائے بہت ضروری حاجت کے کہیں نہ نکلے اور اعتکاف صحیح ہے۔ ابن جوزی کہتے ہیں کہ یہ حدیث نہایت ضعیف ہے اور حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ معتکف کو چاہئے کہ کسی مریض کی عیادت نہ کرے اور نہ کسی جنازہ پر حاضر ہو اور نہ عورت کو ہاتھ لگائے اور نہ صحبت کرے اور سوائے بہت ضروری حاجت کے کہیں نہ نکلے اور اعتکاف روزہ ہی میں ہوتا ہے بغیر روزہ کے صحیح نہیں اور مسجد جامع کے سوا اور جگہ اعتکاف نہیں اور ایک روایت میں ہے کہ مسجد جماعت کے سوا اور جگہ اعتکاف نہیں۔ مسئلہ رمضان المبارک کے اخیر کے دس دن میں اعتکاف سنت موکدہ ہے کیونکہ حضرت عائشہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور وفات تک فرماتے رہے پھر بعد آپ کے آپ کی ازواج مطہرات نے اسی طرح اعتکاف فرمایا اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے اور ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کی اخیر دس راتوں میں اعتکاف فرماتے تھے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے اور انس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ اللہ رمضان کی اخیر دس راتوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے ایک سال اعتکاف نہ فرمایا آئندہ سال بیس رات اعتکاف فرمایا اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور ابو داؤد اور ابن ماجہ نے ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ رسول ﷺ اللہ اور ازواج مطہرات سے تو بیشک اعتکاف کرنا ثابت ہے لیکن اس کو اکثر صحابہ ؓ نے ترک فرمایا ہے۔ ابن نافع فرماتے ہیں کہ اعتکاف مثل صوم وصال کے ہے کہ حضور ﷺ نے خود کیا ہے اور اوروں کو منع فرمایا ہے اور میرا گمان یہ ہے کہ صحابہ ؓ نے اعتکاف کو اس وجہ سے چھوڑ دیا کہ اس میں ایک تنگی اور شدت ہے اور فرماتے ہیں کہ سلف میں سے کسی سے سوائے ابوبکر بن عبد الرحمن کے اعتکاف کرنا ثابت نہیں اور حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ اکثر صحابہ سے اعتکاف کا ترک ثابت ہے میں کہتا ہوں کہ چونکہ اکثر صحابہ نے اس کو ترک فرمایا ہے اسی بنا پر بعض حنفیہ نے اس کو سنت کفایہ فرمایا ہے۔ وا اللہ اعلم۔ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا ( یہ خدائی ضابطے ہیں سو ان کے نزدیک بھی نہ جاؤ) تلک کا مشار الیہ احکام مذکورہ بالا ہیں جیسے روزہ میں کھانا پینا جماع کا حرام ہونا اور اعتکاف میں ہم بستری کا نا درست ہونا وغیرہ وغیرہ حدود اللہ یعنی یہ وہ چیزیں ہیں جن سے اللہ نے روک دیا ہے اور اصل معنی حد کے منع ( روکنا) ہیں۔ فلا تقربوھا ( مت قریب جاؤ ان کے) کا مطلب یہ ہے کہ ان حرام کی ہوئی چیزوں کو مت کرو مبالغہ کے لیے۔ فلا تقربوھا ( مت قریب جاؤ) سے تعبیر کیا ہے ( جیسے کہتے ہیں کہ تم اس کام کے پاس بھی نہ پھٹکنا) سورت کے شروع میں یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان میں بہت سے امور ایسے ہیں کہ جن میں اشتباہ اور دھوکہ ہوتا ہے ان کو بہت سے آدمی نہیں جانتے سو جو شخص ان امور سے بچا اس نے اپنی آبرو اور دین کو بچا لیا اور جو ان امور مشتبہ میں پڑے گا وہ حرام میں جا گرے گا جیسے وہ چرواہا جو خاص چراگاہ ( سلطانی) کے گرد چراتا ہے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ چراگاہ ( سلطانی) میں واقع ہوجاتا ہے آگاہ رہو کہ ہر بادشاہ کے لیے ایک خاص چراگاہ ہوتی ہے کہ وہ اس میں دوسرے شخص کو دخل نہیں دیتا خبر رکھو کہ اللہ کی محفوظ چراگاہ اس کی حرام کی ہوئی چیزیں ہیں 1 ؂ اور چونکہ حرام شأ کے قریب بھی جانے کو حرام فرمایا ہے اس لیے ہمارے ائمہ نے فرمایا کہ جو چیزیں جماع کی طرف رغبت دلاتی ہیں جیسے شہوت سے چھونا اور بوسہ وغیرہ اعتکاف اور روزہ میں یہ سب حرام ہیں اور اگر چھونے یا بوسہ سے انزال ہوگیا تو روزہ اور اعتکاف دونوں فاسد ہوجائیں گے۔ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ اٰيٰتِهٖ للنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ ( اسی طرح صاف صاف بیان کرتے ہے اللہ اپنی نشانیاں لوگوں کے لیے تاکہ وہ پرہیزگار بنیں) یعنی ہم نے یہ احکام بیان کیئے، لَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ یعنی تاکہ اوامرو نواہی کی مخالفت سے بچیں اور اس کے ذریعہ سے پھر جہنم کی آگ سے محفوظ رہیں۔
Top