Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 187
اُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآئِكُمْ١ؕ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ١ؕ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَیْكُمْ وَ عَفَا عَنْكُمْ١ۚ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْهُنَّ وَ ابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ١۪ وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ١۪ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَى الَّیْلِ١ۚ وَ لَا تُبَاشِرُوْهُنَّ وَ اَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ١ۙ فِی الْمَسٰجِدِ١ؕ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَقْرَبُوْهَا١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ اٰیٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
اُحِلَّ
: جائز کردیا گیا
لَكُمْ
: تمہارے لیے
لَيْلَةَ
: رات
الصِّيَامِ
: روزہ
الرَّفَثُ
: بےپردہ ہونا
اِلٰى
: طرف (سے)
نِسَآئِكُمْ
: اپنی عورتوں سے بےپردہ ہونا
ھُنَّ
: وہ
لِبَاسٌ
: لباس
لَّكُمْ
: تمہارے لیے
وَاَنْتُمْ
: اور تم
لِبَاسٌ
: لباس
لَّهُنَّ
: ان کے لیے
عَلِمَ
: جان لیا
اللّٰهُ
: اللہ
اَنَّكُمْ
: کہ تم
كُنْتُمْ
: تم تھے
تَخْتَانُوْنَ
: خیانت کرتے
اَنْفُسَكُمْ
: اپنے تئیں
فَتَابَ
: سو معاف کردیا
عَلَيْكُمْ
: تم کو
وَعَفَا
: اور در گزر کی
عَنْكُمْ
: تم سے
فَالْئٰنَ
: پس اب
بَاشِرُوْھُنَّ
: ان سے ملو
وَابْتَغُوْا
: اور طلب کرو
مَا كَتَبَ
: جو لکھ دیا
اللّٰهُ
: اللہ
لَكُمْ
: تمہارے لیے
وَكُلُوْا
: اور کھاؤ
وَاشْرَبُوْا
: اور پیو
حَتّٰى
: یہاں تک کہ
يَتَبَيَّنَ
: واضح ہوجائے
لَكُمُ
: تمہارے لیے
الْخَيْطُ
: دھاری
الْاَبْيَضُ
: سفید
مِنَ
: سے
لْخَيْطِ
: دھاری
الْاَسْوَدِ
: سیاہ
مِنَ
: سے
الْفَجْرِ
: فجر
ثُمَّ
: پھر
اَتِمُّوا
: تم پورا کرو
الصِّيَامَ
: روزہ
اِلَى
: تک
الَّيْلِ
: رات
وَلَا
: اور نہ
تُبَاشِرُوْھُنَّ
: ان سے ملو
وَاَنْتُمْ
: جبکہ تم
عٰكِفُوْنَ
: اعتکاف کرنیوالے
فِي الْمَسٰجِدِ
: مسجدوں میں
تِلْكَ
: یہ
حُدُوْدُ
: حدیں
اللّٰهِ
: اللہ
فَلَا
: پس نہ
تَقْرَبُوْھَا
: اس کے قریب جاؤ
كَذٰلِكَ
: اسی طرح
يُبَيِّنُ
: واضح کرتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
اٰيٰتِهٖ
: اپنے حکم
لِلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
لَعَلَّهُمْ
: تاکہ وہ
يَتَّقُوْنَ
: پرہیزگار ہوجائیں
روزوں کی راتوں میں تمہارے لئے اپنی عورتوں کے پاس جانا کردیا گیا ہے وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو خدا کو معلوم ہے کہ تم (ان کے پاس جانے سے) اپنے حق میں خیانت کرتے تھے سو اس نے تم پر مہربانی کی اور تمہاری حرکات سےدرگزرفرمائی۔اب (تم کو اختیار ہے کہ) ان سے مباشرت کرو۔ اور خدا نے جو چیز تمہارے لئے لکھ رکھی ہے (یعنی اولاد) اس کو (خدا سے) طلب کرو اور کھاؤ پیو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے۔ پھر روزہ (رکھ کر) رات تک پورا کرو اور جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو ان سے مباشرت نہ کرو۔ یہ خدا کی حدیں ہیں ان کے پاس نہ جانا۔ اسی طرح خدا اپنی آیتیں لوگوں کے (سمجھانے کے) لئے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ وہ پرہیزگار بنیں
اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَام الرَّفَثُ اِلٰى نِسَاۗىِٕكُمْ ( جائز کردیا گیا تمہارے لیے روزوں کی راتوں میں پاس جانا اپنی بیبیوں کے) لفظ رفث جماع سے کنایہ ہے۔ زجاج نے کہا ہے کہ رفث ایک لفظ جامع ہے جس قسم کا مرد عورتوں سے فائدہ اٹھائیں سب کو شامل ہے اور رفث کو الیٰ سے اس لیے متعدی کیا ہے کہ اس لفظ کے اندرافضا (جماع) کا مضمون ہے اور افضا کا صلہ الٰہی آتا ہے) امام احمد اور ابو داؤد اور حاکم نے عبد الرحمان بن ابی لیلیٰ سے انہوں نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کی ہے کہ ابتدا اسلام میں لوگ اوّل شب میں سونے تک کھاتے پیتے تھے عورتوں سے جماع کرتے تھے اور سونے کے بعد سے پھر صبح تک سب چیزوں سے باز رہتے تھے ایک مرتبہ ایسا قصہ ہوا کہ ایک شخص انصاری حرمہ نام نے عشاء کی نماز پڑھی پھر بغیر کچھ کھائے پیئے سو رہے صبح کو یہ حالت ہوئی کہ بھوک پیاس کی بہت شدت تھی اور ایک مرتبہ عمر ؓ کی بھی یہ کیفیت ہوئی کہ بعد سونے کے بی بی سے صحبت کر بیٹھے یہ قصہ جناب رسول اللہ سے عرض کیا اللہ تعالیٰ نے اسی وقت آیت : احل لکم الخ نازل فرمائی یہ حدیث ابن ابی لیلی سے مشہور ہے اور ابن ابی لیلیٰ نے حضرت معاذ ؓ سے نہیں سنا لیکن اس حدیث کے اور بہت سے شواہد ہے۔ امام بخاری (رح) نے حضرت براء ؓ سے روایت کی ہے کہ اصحاب رسول اللہ کی یہ حالت تھی کہ جب کوئی شخص روزہ رکھتا تھا اور افطار کا وقت آجاتا تھا اور روزہ افطار کرنے سے پہلے ہی سو جاتا تھا تو پھر وہ نہ اس رات کو کھاتا پیتا تھا اور نہ اگلے روز شام تک کچھ کھاتا پیتا تھا ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ قیس بن صرمہ انصاری ؓ روزہ دار تھے جب افطار کا وقت ہوا تو اپنی زوجہ سے پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ کھانا ہے اس نے کہا موجود تو نہیں لیکن تمہارے واسطے کہیں سے لاتی ہوں یہ تمام دن تو کام کاج کرتے تھے اس کے جاتے ہی نیند غالب ہوئی سو رہے جب وہ آئی تو ان کو سوتے دیکھ کر بولی۔ بد قسمتی اس کے بعد تو کھا ہی نہیں سکتے تھے۔ دوسرے دن جب دوپہر ہونے آئی تو ضعف کی وجہ سے ان پر غشی طاری ہوگئی یہ قصہ جناب رسول اللہ کے سامنے پیش ہوا اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ بخاری نے حضرت براء ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو لوگ تمام رمضان عورتوں کے پاس نہ جاتے تھے اتفاقاً چند آدمی اپنی بیبیوں سے صحبت کر بیٹھے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت : علم اللہ انکم الخ نازل فرمائی اور امام احمد اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے عبد اللہ بن کعب کے طریق سے ان کے باپ سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ رمضان میں لوگوں کی یہ حالت تھی کہ جب کوئی شخص شام کو سو رہتا تھا تو اس پر کھانا پینا اور عورتوں کے پاس جانا سب حرام ہوجاتا تھا دوسرے دن افطار تک حرام رہتا تھا ایک روز رات کو حضرت عمر کو جناب رسول ﷺ اللہ کی خدمت اقدس میں باتوں میں دیر ہوگئی جب وہاں سے تشریف لائے تو بی بی سے مشعول ہونے کا ارادہ فرمایا انہوں نے عذر کیا کہ میں سو گئی تھی حصرت عمر ؓ نے فرمایا کہ میں تو نہیں سویا یہ کہہ کر مشغول ہوگئے اور یہی فعل کعب بن مالک ؓ سے ہوگیا صبح کو عمر ؓ نے یہ واقعہ جناب رسول ﷺ اللہ کی خدمت میں عرض کیا۔ اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی اور علامہ بغوی نے فرمایا ہے کہ ابتداء اسلام میں جب آدمی عشاء کی نماز پڑھ لیتا تھا یا اس سے پہلے سو رہتا تھا تو اس پر کھانا پینا جماع اگلی رات تک سب حرام ہوجاتا تھا اور عمر ؓ بعد نماز عشاء کے اپنی بی بی سے صحبت کر بیٹھے پھر رسول ﷺ اللہ سے عذر کیا نبی ﷺ نے فرمایا کہ اے عمر تم کو یہ بات لائق نہ تھی پھر اور بھی چند آدمی کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھی اپنا اسی قسم کا واقعہ بیان کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ( وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس 1 ) ترکیب لغوی کے اعتبار سے یہ آیت ایک سوال مقدر کا جواب ہے گویا کوئی سوال کرتا تھا کہ روزوں کی رات میں جماع کے حلال ہونے کی کیا وجہ ہے تو اس کا سبب ارشاد ہوتا ہے کہ تم کو عورتوں سے صبر نہیں ہوسکتا اور کثرت میل جول اور شدت تعلق کی وجہ سے ایسی حالت ہوگئی جیسے ایک دوسرے کا لباس ہو احتراز مشکل تھا اس لیے روزوں کی رات میں جماع حلال کردیا گیا چونکہ مرد اور عورت آپس میں ایک دوسرے سے لپٹتے ہیں اور ہر ایک دوسرے پر مثل لباس کے مشتمل ہوجاتا ہے اس لیے مرد اور عورت دونوں کو ایک دوسرے کے لباس سے تشبیہ دی اور یا اس لیے کہ لباس جس طرح لابس ( پہننے والے) کو چھپا لیتا ہے اسی طرح مرد اور عورت ایک دوسرے کو حرام سے چھپا تا اور روکتا ہے چناچہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جس نے نکاح کرلیا اس نے دو تہائی دین جمع کرلیا۔ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ ( اللہ نے معلوم کیا کہ تم چوری سے اپنے نقصان کرتے تھے) یعنی بعد عشاء یا بعد سو رہنے کے مجامعت کرکے اپنی جانوں کو عقاب اور سزا کے مقام میں لا کر ان پر ظلم کرتے تھے اور ثواب کا حصہ کم کرتے تھے اختیان میں خیانت سے زیادہ مبالغہ ہے۔ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ( سو اس نے معاف کیا تم کو) یعنی جب تم نے توبہ کرلی تو اللہ تعالیٰ نے بھی معاف کردیا۔ وَعَفَا عَنْكُمْ ( اور درگذر کی تم سے) یعنی تمہارے گناہوں کو محو فرما دیا۔ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ ( پس اب تم ان سے ہم بستر ہو) یعنی اب حلال طور سے مجامعت کرو مباشرت بول کر صحبت مراد لی ہے۔ وَابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ ۠ ( اور چاہو جو اللہ نے لکھ دیا تمہارے لیے) یعنی جو تمہاری قسمت میں اولاد اللہ تعالیٰ نے لکھ دی ہے وہ بذریعہ صحبت کے طلب کرو۔ یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ جب کوئی شخص اپنی عورت سے مجامعت کرے تو مناسب یہ ہے کہ مجامعت سے اولاد کی نیت کرے صرف اپنی خواہش ہی پوری کرنے کا ارادہ نہ کرے چناچہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ ایسی عورت سے نکاح کر جو خاوند کو دوست رکھنے والی ہو اور خوب جننے والی ہو کیونکہ میں تمہاری کثرت پر اور امتوں کے سامنے فخر کروں گا۔ اس حدیث کو ابو داؤد اور نسائی نے معقل بن یسار سے روایت کیا ہے اور اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عزل 2 مکروہ ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جماع بچہ پیدا ہونے کی جگہ ہی میں مباح ہے۔ صاحب معالم التنزیل ‘ علامہ بغوی نے فرمایا ہے کہ حضرت معاذ بن جبل ؓ فرماتے ہیں کہ ما کتب اللہ سے مراد لیلۃ القدر ہے میں کہتا ہوں کہ یہ معنی سیاق آیت سے بعید ہیں۔ وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۠ ( اور کھاتے پینے رہو یہاں تک کہ صاف نظر آنے لگے تمہیں صبح کی سفید دھاری کالی دھاری سے) خیط ابیض سے دن کی روشنی اور خیط اسود سے رات کی سیاہی مراد ہے اور خیط ( دھاگا) اس لیے فرمایا کہ جب صبح ابتداً ظاہر ہوتی ہے تو جنوب سے شمال کو مثل دھاگے کے کھینچ جاتی ہے اور من الفجر من الخیط الابیض سے حال اور اس کا بیان ہے اور خیط اسود کا بیان اس لیے نہیں لائے کہ جب خیط ابیض سے مراد فجر ہوئی تو خیط اسود سے رات مراد ہونا خود ہی سمجھ میں آجائے گا اور من الفجر میں من یا تو تبعیض کے لیے ہے اس تقدیر پر تو یہ معنی ہوں گے کہ اس حال میں کہ وہ خیط ابیض خود فجرکا حصہ ہو اور صراحتاً حتی یتبین الفجر (یہاں تک کہ صبح صاف ظاہر ہوجائے) اس لیے نہیں فرمایا تاکہ معلوم ہوجائے کہ ادنیٰ حصہ بھی ظاہر ہوتے ہی کھانا پیناحرام ہوجاتا ہے اور بغیر ذکر من الخیط الاسود کے اس طرح بھی نہ فرمایا : حتیٰ یتبین لکم الخیط الابیض من الفجر (یہاں تک کہ سفید دھاری صبح کی تم کو صاف ظاہر ہوجائے۔ ) اس واسطے کہ یہ معلوم ہوجائے کہ فجر سے مراد صبح صادق ہے کیونکہ صبح صادق ایک سفید دھاری جنوب سے شمال کو پھیلی ہوئی ہوتی ہے اور اس کے متصل ہی اس سے قبل ایک سیاہ دھاری ہوتی ہے جو غربی جانب پھیلی ہوئی ہوتی ہے اور وہ رات کی سیاہی کا ایک حصہ ہوتی ہے بخلاف فجر کاذب کے کہ وہ بھی ایک سفید دھاری لیکن لمبی شرق و غرب کو ہوتی ہے کہ اس کے بعد تاریکی تمام اطراف کا احاطہ کرلیتی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ من الفجر الخیط الاسود اور الخیط الابیض دونوں کا بیان ہو کیونکہ فجر میں دونوں باتیں ہوتی ہیں تاریکی بھی ہوتی ہے اور روشنی بھی اور یہ ترکیب اولیٰ ہے کیونکہ اس صورت میں حال اور ذوالحال میں اجنبی سے فصل لازم نہ آئے گا۔ وا اللہ اعلم سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ اے لوگو ! بلال کی اذان اور فجر طویل ( یعنی صبح کاذب) کے سبب سے تم سحری کھانے سے مت رکا کرو بلکہ اس فجر سے رکا کرو جو افق میں پھیل جاتی ہے۔ ( یعنی صبح صادق) اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ ( اے لوگو) بلال رات سے ہی اذان دیتے ہیں تو تم ابن ام مکتوم کے اذان دینے تک کھاتے پیتے رہا کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ ابن ام مکتوم ؓ اندھے آدمی تھے اور اذان اس وقت دیتے تھے کہ جب ان سے کئی مرتبہ کہا جاتا تھا کہ صبح ہوگی۔ اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت علی ؓ سے ثابت ہے کہ انہوں نے صبح کی نماز پڑھ کر فرمایا کہ اب سفید دھاری کالی دھاری سے متمیز ہوئی ہے اس روایت کو ابن منذر نے روایت کیا ہے اور اسی طرح ابن منذر نے بسند صحیح حضرت ابوبکر صدیق سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ اگر کھانے کی رغبت اور حرص نہ ہوتی تو میں صبح کی نماز پڑھ کر سحری کھایا کرتا اور ابن منذر اور ابن ابی شیبہ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے امر فرمایا کہ دروازہ فجر کے دکھائی دینے تک بند رہے۔ پس یہ سب آثار اس پر صاف دال ہیں کہ صبح کے پھیل جانے کے بعد کھانا جائز ہے۔ اب ان اقوال کی کیا توجیہ ہوگی۔ میں کہتا ہوں کہ غیب کی خبر تو اللہ جانے بظاہر ان اقوال کی یہ وجہ معلوم ہوتی ہے کہ ابوبکر اور علی ؓ نے یہ سمجھا ہوگا کہ من الفجر میں من سببیہ ہے اور خیط سے حقیقی معنی (دھاگا) مراد ہیں حالانکہ حدیث سے ثابت ہے کہ من الفجر میں من بیانیہ ہے اور خیط ابیض سے مراد صبح ہے اور اسی پر اجماع ہے عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے کہ جب آیت : حتی یتیبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود نازل ہوئی تو میں نے ایک سیاہ دھاگا اور ایک سپید لیا اور ان کو اپنے تکیہ کے نیچے رکھ لیا اور رات کو ان کو دیکھا تو مجھ کو دونوں میں کچھ فرق نہ معلوم ہوا صبح کو میں جناب رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کا ذکر کیا آپ نے فرمایا کہ اس سے تورات کی سیاہی اور دن کی سپیدی مراد ہے اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے اور ایک روایت میں ہے کہ پھر آپ نے فرمایا کہ تو عریض القضا (کم عقل) ہے یہ تو دن کی سپیدی اور ات کی سیاہی ہے۔ سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ جب : کلوا واشربوا حتی یتبین لکم الخیط الابیض منالخیط الاسود نازل ہوئی اور اس وقت تک من الفجر نازل نہ ہوا تھا تو بہت سے آدمی یہ کرتے تھے کہ جب روزہ رکھنے کا ارادہ کرتے تو اپنے دونوں پاؤں میں سپید اور سیاہ دھاگا باندھ لیتے اور کھاتے رہتے جب وہ دونوں صاف نظر آنے لگتے اس وقت کھانے پینے سے رکتے جب اللہ تعالیٰ نے من الفجرنازل فرمایا تو انہوں نے جانا کہخیط ابیض اور خیط اسود سے دن اور رات مراد ہیں۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے اگر کوئی یہ کہے کہ سہل بن سعد کی حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ من الفجر آیت سے ایک زمانہ کے بعد نازل ہوئی ہے اگر یہ صحیح ہے تو یہ اشکال لازم آتا ہے کہ بیان اپنے مبین سے وقت حاجت سے مؤخر ہو اور یہ جائز نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ خیط ابیض اور اسود کا استعمال دن کی روشنی اور رات کی تاریکی میں شائع وذائع تھا بیان کرنے کی حاجت نہ تھی اور اگر بالفرض بعض لوگوں پر تامل و تدبر نہ کرنے کی وجہ سے پوشیدہ بھی ہو تو پھر بھی یہ مجمل کی قسم سے نہ ہوگا بلکہ اس کو مشکل کہا جائے گا اور مشکل ( اصطلاح میں) اس لفظ کو کہتے ہیں کہ متکلم کو جو کچھ اس سے مقصود ہے اس میں صیغہ کی رو سے یا استعمال مجاز سے خفا آجائے اور وہ خفا ایسا ہو کہ تامل اور طلب سے زائل ہوجاتا ہے اب اس تقدیر پر لفظ من الفجرصرف اس لیے نازل فرمایا تاکہ اور زیادہ وضوح ہوجائے اور جو لوگ کوتاہ فہم ہیں وہ محفوظ کرلیں اور ان کو طلب و تامل کی ضرورت نہ رہے اور باب مجمل سے نہ ہوگا کہ جس کے معنی بغیر شارع کے بتائے سمجھ میں نہ آئیں۔ اس لفظ کے نزول میں دیر ہونے سے کسی قسم کا اشکال نہ رہا اور اگر بالفرض اس کا مجمل ہونا تسلیم بھی کرلیا جائے تو کیا عجب ہے کہ اس کا بیان شارع کی طرف سے وحی غیرتلاوت شدہ میں آچکا ہو اور حدیث سے ثابت ہو ( چناچہ عدی بن حاتم ؓ کی حدیث اس پر دال ہے اور اسکے بعد تائید اور تاکید کے طور پر من الفجر نازل ہوا ہو۔ امام طحاوی فرماتے ہیں کہ خیط اسود اور خیط ابیض سے ان کے ظاہری معنی مراد ہیں اور من الفجر اس کا ناسخ ہے اور طحاوی (رح) کے اس قول کی حضرت حذیفہ ؓ کی حدیث ذیل تائید کرتی ہے فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ کے ساتھ بالکل دن نکلے سحری کھائی اتنی بات تھی کہ سورج نکلا نہ تھا۔ ورنہ بالکل روشنی تھی اس حدیث کو سعید بن منصور نیروایت کیا ہے پس کیا بعید ہے کہ حضرت حذیفہ ؓ نے جناب سرور کائنات ﷺ کے ساتھ من الفجر کے نزول سے پہلے سحری کھائی ہو۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ لفظ من الفجر مستقل کلام نہیں اور ناسخ کلام مستقل ہوتا ہے تو من الفجر کیسے ناسخ بن سکتا ہے اور اگر اس کو نزول میں متاخر مانا جائے تو پھر کلام سابق کا مخصص بھی نہیں بن سکتا کیونکہ قصر اور تخصیص کے لیے یہ ضروری ہے کہ ماقبل سے متصل ہو تو جب نہ ناسخ بن سکتا ہے اور نہ مخصص تو اس کی کیا توجیہ ہے۔ اس اشکال کا جواب میرے نزدیک یہ ہے کہ اوّل پوری آیت بغیر لفظ من الفجر کے نازل ہوئی پھر ایک مدت کے بعد یہی آیت دوسری مرتبہ قید من الفجر کے ساتھ اتری اس لیے پہلی آیت کی باعتبار حکم اور تلاوت کے ناسخ بن گئی ‘ وا اللہ اعلم۔ فائدہ عدی بن حاتم ؓ کا قصہ من الفجر کے نازل ہونے کے بعد ہوا ہے کیونکہ عدی بن حاتم ؓ 9 ھ میں اسلام لائے ہیں اور روزہ کی آیت 2 ھ میں نازل ہوئی ہے اور لفظ من الفجر اس کے تقریباً ایک سال بعد نازل ہوا تھا۔ پس عدی بن حاتم ؓ ؓ نے جو دو دھاگے تکیہ کے نیچے رکھ لیے تھے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے من الفجر میں من کو سببیہ کے لیے سمجھا تھا وا اللہ اعلم۔ فائدہ جماع کو فجر تک جائز رکھنے سے یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ جنبی کو صبح کے بعد بھی غسل کرنا جائز ہے اور نیز یہ کہ کوئی اگر صبح تک جناب کی حالت میں رہاتو اس کا روزہ بالاتفاق صحیح ہے۔ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيْلِ ( پھر پورا کرو روزہ کو رات تک) یہ آیت روزہ کے آخر وقت کا بیان ہے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ جب رات کی سیاہی اس طرف چھا جائے اور دن اس طرف منہ پھیرے اور آفتاب غروب ہوجائے تو یہ وقت افطار کا ہے اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے اس آیت سے معلوم ہوا کہ روزہ کی حقیقت کھانے پینے اور جماع سے صبح صادق سے غروب آفتاب تک نیت کے ساتھ رکنا ہے اور نیت کا وجوب لفظ ثم اتموا سے صاف ظاہر ہے کیونکہ اتمام ( پورا کرنا) فعل اختیاری ہے یا یہ کہا جائے کہ روزہ جب عبادت ہے تو اس کے لیے نیت بھی ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : وَ مَا اُمِرُوا اِلَّا لیعبدوا اللہ مخلصین لہ الدین یعنی اور ان کو یہی حکم دیا گیا کہ اللہ کی عبادت کریں خالص اسی کی عبادت سمجھ کر اور رسول اللہ فرماتے ہیں کہ اعمال کا مدار نیت پر ہے اور آدمی کو وہی ملتا ہے جو اسکی نیت ہے اس لیے جس شخص کی نیت اللہ و رسول کی طرف ہجرت کرنے کی ہے اس کو اسی کا ثمرہ ملے گا اور جس کی ہجرت دنیا کی طرف ہے کہ دنیا ملے یا کسی عورت سے نکاح کرے تو اس کو اس کا پھل ملے گا۔ اس حدیث کو تمام محدثین نے سوائے امام مالک (رح) کے روایت کیا ہے لیکن امام مالک (رح) سے بھی بخاری نے روایت کیا ہے اور یہ حدیث معنی کے اعتبار سے متواتر ہے اور تمام امت محمدیہ نے اس کو قبول کیا ہے اور اس پر سب علماء کا اتفاق ہے کہ ہر عبادت مقصودہ بغیر نیت کے صحیح نہیں اس قاعدہ کا مقتضی یہ تھا کہ نیت پوری عبادت میں شرط ہے لیکن حرج اور تنگی کی وجہ سے یہ تمام اوقات میں ساقط ہوگئی نماز میں تو نیت اوّل جزو یعنی تکبیر تحریمہ کے مقارن ہونا شرط ہوگئی اور دیگر اجزاء میں حکماً اعتبار کرلی جائے گی اور روزہ کے جزو اوّل میں بھی یہ شرط نہیں کیونکہ روزہ کا جزو اوّل طلوع فجر کے وقت ہے اور یہی وقت اکثر غفلت اور سونے کا ہے اس لیے روزہ میں شروع سے پہلے کی نیت بھی کافی ہے اور باقی وقت میں جب تک اس نیت کو توڑے نہیں اعتبار کرلی جائے گی۔ اس میں اختلاف ہے کہ آیا بعد طلوع فجر کے اگر نیت کرے تو روزہ ہوجائے گا یا نہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) تو یہ فرماتے ہیں کہ اگر شرعی دن کے نصف سے پہلے پہلے نیت کرلے تو رمضان اور نذر معین اور نفل کے روزے صحیح ہوجائیں گے اور امام شافعی اور احمد (رح) فرماتے ہیں کہ اگر زوال سے پہلے نیت کرلے تو نفل روزہ صرف صحیح ہے اور روزے صحیح نہ ہوں گے اور امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ کوئی روزہ دن کی نیت سے صحیح نہ ہوگا اور حضرت حفصہ ؓ کی حدیث امام مالک ؓ کی مؤید ہے وہ فرماتی ہیں کہ جناب رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ جو شخص طلوع فجر سے پہلے روزے کا عزم نہ کرے اس کا روزہ نہیں۔ اس حدیث کو امام احمد اور ابو داؤد اور ترمذی اور نسائی اور ابن خزیمہ اور ابن ماجہ اور دار قطنی اور دارمی نے روایت کیا ہے اور ایک روایت میں یہ مضمون ہے کہ جس شخص نے رات سے روزہ کا قطعی ارادہ نہ کیا اس کا روزہ نہیں اور ایک روایت میں ہے کہ جس نے اپنا روزہ فجر سے پہلے نہ ثابت کرلیا اس کا روزہ نہیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اس حدیث کی نسبت ابو داؤد نے کہا ہے کہ اس حدیث کو مرفوع ہونا صحیح نہیں اور ترمذی نے کہا ہے کہ اس حدیث کا موقوف ہونا صحیح تر ہے تو ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ ابن جریج اور عبد اللہ بن ابی بکر نے اس کو مرفوع کہا ہے یہ دونوں اس حدیث کو زہری سے اور زہری سالم سے اور سالم اپنے باپ سے اور وہ ام المؤمنین حضرت حفصہ ؓ سے اور وہ حضور ﷺ سے روایت کرتی ہیں اور ابن جریج اور عبد اللہ بن ابی بکر دونوں ثقہ ہیں اور مرفوع کہنا اس حدیث کا زیادتی ہے اور زیادتی ثقہ کی مقبول ہوا کرتی ہے اور محدثین کی عادت ہے کہ موقوف اور مرسل دونوں کو موقوف کہتے ہیں اور موقوف کا اصح ہونا مرفوع کے صحیح ہونے کے منافی نہیں اور حاکم نے اس حدیث کے مرفوع ہونے کی صورت میں کہا ہے کہ یہ حدیث شرط شیخین پر صحیح ہے اور مستدرک میں کہا ہے کہ شرط بخاری پر صحیح ہے اور بیہقی اور دار قطنی نے کہا ہے کہ اس حدیث کے راوی سب ثقہ ہیں۔ اور اسی مضمون کی حدیث ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے منقول ہے وہ فرماتی ہیں کہ جس شخص نے روزہ کو قبول از فجر ثابت نہ کیا اس کا روزہ نہیں اس حدیث کو دار قطنی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے راوی ثقہ ہیں لیکن اس کی سند میں ایک راوی عبد اللہ بن عباس ہے۔ ابن حبان (رح) نے اس کو ضعیف راویوں میں شمار کیا ہے اور ایک یحییٰ بن ایوب ہیں وہ بھی کچھ قوی نہیں۔ اور میمونہ بنت سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ جس نے رات سے ٹھان لیا کہ کل کو روزہ رکھوں گا تو اس کو رکھنا چاہئے اور جس نے صبح تک عزم نہ کیا ہو اس کو روزہ نہ رکھنا چاہیے۔ اس کو دار قطنی نے روایت کیا ہے لیکن اس کی سند میں واقدی راوی کچھ نہیں۔ اور جو لوگ نفل روزہ کے لیے دن کو نیت کرلینا کافی سمجھتے ہیں انکی دلیل حضرت عائشہ ؓ کی حدیث ہے وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ جب میرے پاس تشریف لاتے تو فرماتے کہ تمہارے پاس کچھ کھانا ہے جب ہم کہہ دیتے کہ نہیں ہے تو فرماتے کہ بس تو میں روزہ دار ہوں۔ ایک روز کا قصہ ہے کہ آپ تشریف لائے میں نے عرض کیا یا رسول ﷺ اللہ ہمارے پاس کچھ حیس (کھجوریں اور گھی و مسکہ وغیرہ سے مرکب کرکے ایک کھانا بنایا جاتا ہے) ہدیہ میں آیا ہے فرمایا کہ لاؤ اور صبح سے تو میں روزہ دار تھا اور مسلم کی روایت میں یہ مضمون ہے کہ حضور ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کچھ ہے میں نے عرض کیا کہ ہمارے پاس کچھ نہیں فرمایا کہ بس تو میں روزہ دار ہوں یہ کہہ کر حضور باہر تشریف لے گئے اس کے بعد ہمارے پاس کچھ ہدیہ آیا جب پھر گھر میں جناب رسول ﷺ اللہ تشریف لائے تو میں نے عرض کیا یا رسول ﷺ اللہ ہمارے پاس کچھ ہدیہ آیا ہے فرمایا کیا ہے میں نے عرض کیا حیس ہے فرمایا لاؤ میں لائی تو حضور نے نوش فرمایا پھر فرمایا کہ صبح سے تو میں روزہ دار تھا اس حدیث کا مالکیہ یہ جواب دیتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جناب رسول ﷺ اللہ نے دن کو روزہ کی نیت کی اور رات سے نیت روزہ کی نہیں تھی بلکہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضور صبح سے روزہ دار تھے اور رات سے نیت روزہ کی آپ نے فرمائی تھی پھر اپنی زوجہ مطہرہ کے پاس تشریف لائے تھے اور روزہ نفل کو توڑ دیا تھا چناچہ مضمون صبح سے میں روزہ دار تھا “ اس پر صاف دال ہے۔ وَلَا تُـبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ ۙ فِي الْمَسٰجِدِ ( اور نہ ہم بستر ہونا ان سے جس حالت میں کہ تم اعتکاف میں بیٹھے ہو مسجدوں میں) عکوف کے معنی لغت میں کسی شے پر اقامت کرنے اور ٹھہرنے کے ہیں اور اصطلاح اہل شرع میں اعتکاف مسجد میں نیت کے ساتھ اللہ کی عبادت پر ٹھہرنے اور اقامت کرنے کو کہتے ہیں۔ علامہ بغوی نے فرمایا ہے کہ یہ آیت چند صحابہ ؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے وہ مسجد میں اعتکاف کرتے تھے جب کسی کو ان میں اپنی زوجہ کے پاس جانے کی ضرورت ہوتی تو اعتکاف سے نکل کر اس سے صحبت کرلیتے اور پھر غسل کرکے مسجد میں آجاتے تھے پھر اس آیت سے رات اور دن دونوں میں اعتکاف سے فارغ ہونے تک عورت کے پاس جانا حرام ہوگیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جماع سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے اور سب کے نزدیک اعتکاف میں جماع حرام ہے لیکن شافعی ؓ فرماتے ہیں کہ اگر بھول کر جماع کرلیا تو جیسے روزہ نہیں فاسد ہوتا اسی طرح اعتکاف بھی فاسد نہیں ہوتا۔ ہم کہتے ہیں کہ اعتکاف اور روزہ فرق ہے اعتکاف کی حالت تو خود اعتکاف کو یاد لانے والی ہے بخلاف روزہ کے کہ روزہ میں کوئی ایسی حالت جدیدہ نہیں ظاہر ہوتی کہ جس سے روزہ یا در ہے اور حسن بصری (رح) اور زہری (رح) سے منقول ہے کہ جو اعتکاف میں اپنی زوجہ سے جماع کرے تو اس پر کفارہ لازم ہے اور کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے لیکن سب علماء کا اس پر اجماع ہے کہ کفارہ نہیں ہے اور اگر شہوت سے بوسہ لیا یا چھوا اور انزال ہوگیا تو سب کے نزدیک اعتکاف باطل ہوگیا اور اگر انزال نہیں ہوا تو فعل حرام ہوا لیکن اعتکاف فاسد نہیں ہوا لیکن امام مالک کے نزدیک اس صورت میں اعتکاف باطل ہوجائے گا اور چھونے سے لذت حاصل کرنا مقصود نہ ہو تو اس میں کچھ حرج نہیں چناچہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب جناب رسول اللہ اعتکاف فرمایا کرتے تھے تو اپنا سر مبارک میرے قریب فرما دیتے تھے میں کنگھی کردیتی تھی۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے مسلم کی روایت میں اتنازیادہ ہے کہ حضور گھر میں حاجت انسانی کے سوا اور کسی شے کے لیے تشریف نہ لے جاتے تھے اور : و انتم عاکفون فی المساجد ( اور تم اعتکاف کرنے والے ہومسجدوں میں) سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اعتکاف سوائے مسجد کے اور جگہ صحیح نہ ہوگا اور مسجد سے مراد وہ مسجد ہے جس میں جماعت ہوتی ہو گھر کی مسجد مراد نہیں اور المساجد کا اطلاق یہ بتارہا ہے کہ اعتکاف ہر مسجد میں درست ہے مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ اور مسجد نبی ﷺ اور مسجد جمعہ کی کوئی خصوصیت نہیں اور حزیفہ ؓ سے مروی ہے کہ مساجد مذکورہ میں صحیح ہوگا دوسری مسجد میں درست نہیں اور عطا فرماتے ہیں کہ مسجد مکہ میں جائز ہوسکتا ہے اور ابن مسیب ؓ مسجد مدینہ میں حصر کے قائل ہیں اور امام مالک کے نزدیک مسجدجمعہ میں صحیح ہے اور امام شافعی (رح) کے بھی پہلے قول میں اسی طرف اشارہ ہے کہ مسجد جمعہ میں اعتکاف درست ہے اور دوسری مسجد میں مشروع نہیں۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ بغض اور عداوت کی چیز بدعات ہیں اور یہ بھی بدعات میں سے ہے کہ گھروں کی مسجدوں میں اعتکاف کیا جائے۔ اس حدیث کو بیہقی نے روایت کیا ہے اور علی ؓ فرماتے ہیں کہ اعتکاف سوائے مسجد جماعت کے اور مسجد میں صحیح نہیں اس کو ابن ابی شیبہ اور عبد الرزاق نے اپنی اپنی مصنف میں لکھا ہے اور حذیفہ ؓ فرماتے ہیں کہ لوگو سنو میں یہ امر خوب جانتا ہوں کہ مسجد جماعت کے سوا اور جگہ اعتکاف درست نہیں اس حدیث کو طبرانی نے روایت کیا ہے اور ابن جوزی نے حذیفہ ؓ سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ جس مسجد میں امام اور مؤذن ہے اس میں اعتکاف صحیح ہے ابن جوزی کہتے ہیں کہ یہ حدیث نہایت ضعیف ہے اور حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ معتکف کو چاہئے کہ کسی مریض کی عیادت نہ کرے اور نہ کسی جنازہ پر حاضر ہو اور نہ عورت کو ہاتھ لگائے اور نہ صحبت کرے اور سوائے بہت ضروری حاجت کے کہیں نہ نکلے اور اعتکاف صحیح ہے۔ ابن جوزی کہتے ہیں کہ یہ حدیث نہایت ضعیف ہے اور حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ معتکف کو چاہئے کہ کسی مریض کی عیادت نہ کرے اور نہ کسی جنازہ پر حاضر ہو اور نہ عورت کو ہاتھ لگائے اور نہ صحبت کرے اور سوائے بہت ضروری حاجت کے کہیں نہ نکلے اور اعتکاف روزہ ہی میں ہوتا ہے بغیر روزہ کے صحیح نہیں اور مسجد جامع کے سوا اور جگہ اعتکاف نہیں اور ایک روایت میں ہے کہ مسجد جماعت کے سوا اور جگہ اعتکاف نہیں۔ مسئلہ رمضان المبارک کے اخیر کے دس دن میں اعتکاف سنت موکدہ ہے کیونکہ حضرت عائشہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور وفات تک فرماتے رہے پھر بعد آپ کے آپ کی ازواج مطہرات نے اسی طرح اعتکاف فرمایا اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے اور ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کی اخیر دس راتوں میں اعتکاف فرماتے تھے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے اور انس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ اللہ رمضان کی اخیر دس راتوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے ایک سال اعتکاف نہ فرمایا آئندہ سال بیس رات اعتکاف فرمایا اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور ابو داؤد اور ابن ماجہ نے ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ رسول ﷺ اللہ اور ازواج مطہرات سے تو بیشک اعتکاف کرنا ثابت ہے لیکن اس کو اکثر صحابہ ؓ نے ترک فرمایا ہے۔ ابن نافع فرماتے ہیں کہ اعتکاف مثل صوم وصال کے ہے کہ حضور ﷺ نے خود کیا ہے اور اوروں کو منع فرمایا ہے اور میرا گمان یہ ہے کہ صحابہ ؓ نے اعتکاف کو اس وجہ سے چھوڑ دیا کہ اس میں ایک تنگی اور شدت ہے اور فرماتے ہیں کہ سلف میں سے کسی سے سوائے ابوبکر بن عبد الرحمن کے اعتکاف کرنا ثابت نہیں اور حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ اکثر صحابہ سے اعتکاف کا ترک ثابت ہے میں کہتا ہوں کہ چونکہ اکثر صحابہ نے اس کو ترک فرمایا ہے اسی بنا پر بعض حنفیہ نے اس کو سنت کفایہ فرمایا ہے۔ وا اللہ اعلم۔ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا ( یہ خدائی ضابطے ہیں سو ان کے نزدیک بھی نہ جاؤ) تلک کا مشار الیہ احکام مذکورہ بالا ہیں جیسے روزہ میں کھانا پینا جماع کا حرام ہونا اور اعتکاف میں ہم بستری کا نا درست ہونا وغیرہ وغیرہ حدود اللہ یعنی یہ وہ چیزیں ہیں جن سے اللہ نے روک دیا ہے اور اصل معنی حد کے منع ( روکنا) ہیں۔ فلا تقربوھا ( مت قریب جاؤ ان کے) کا مطلب یہ ہے کہ ان حرام کی ہوئی چیزوں کو مت کرو مبالغہ کے لیے۔ فلا تقربوھا ( مت قریب جاؤ) سے تعبیر کیا ہے ( جیسے کہتے ہیں کہ تم اس کام کے پاس بھی نہ پھٹکنا) سورت کے شروع میں یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان میں بہت سے امور ایسے ہیں کہ جن میں اشتباہ اور دھوکہ ہوتا ہے ان کو بہت سے آدمی نہیں جانتے سو جو شخص ان امور سے بچا اس نے اپنی آبرو اور دین کو بچا لیا اور جو ان امور مشتبہ میں پڑے گا وہ حرام میں جا گرے گا جیسے وہ چرواہا جو خاص چراگاہ ( سلطانی) کے گرد چراتا ہے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ چراگاہ ( سلطانی) میں واقع ہوجاتا ہے آگاہ رہو کہ ہر بادشاہ کے لیے ایک خاص چراگاہ ہوتی ہے کہ وہ اس میں دوسرے شخص کو دخل نہیں دیتا خبر رکھو کہ اللہ کی محفوظ چراگاہ اس کی حرام کی ہوئی چیزیں ہیں 1 اور چونکہ حرام شأ کے قریب بھی جانے کو حرام فرمایا ہے اس لیے ہمارے ائمہ نے فرمایا کہ جو چیزیں جماع کی طرف رغبت دلاتی ہیں جیسے شہوت سے چھونا اور بوسہ وغیرہ اعتکاف اور روزہ میں یہ سب حرام ہیں اور اگر چھونے یا بوسہ سے انزال ہوگیا تو روزہ اور اعتکاف دونوں فاسد ہوجائیں گے۔ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ اٰيٰتِهٖ للنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ ( اسی طرح صاف صاف بیان کرتے ہے اللہ اپنی نشانیاں لوگوں کے لیے تاکہ وہ پرہیزگار بنیں) یعنی ہم نے یہ احکام بیان کیئے، لَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ یعنی تاکہ اوامرو نواہی کی مخالفت سے بچیں اور اس کے ذریعہ سے پھر جہنم کی آگ سے محفوظ رہیں۔
Top