Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 164
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ وَ الْفُلْكِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَ بَثَّ فِیْهَا مِنْ كُلِّ دَآبَّةٍ١۪ وَّ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ
اِنَّ
: بیشک
فِيْ
: میں
خَلْقِ
: پیدائش
السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں
وَالْاَرْضِ
: اور زمین
وَ
: اور
اخْتِلَافِ
: بدلتے رہنا
الَّيْلِ
: رات
وَالنَّهَارِ
: اور دن
وَالْفُلْكِ
: اور کشتی
الَّتِىْ
: جو کہ
تَجْرِيْ
: بہتی ہے
فِي
: میں
الْبَحْرِ
: سمندر
بِمَا
: ساتھ جو
يَنْفَعُ
: نفع دیتی ہے
النَّاسَ
: لوگ
وَمَآ
: اور جو کہ
اَنْزَلَ
: اتارا
اللّٰهُ
: اللہ
مِنَ السَّمَآءِ
: آسمان سے
مِنْ
: سے
مَّآءٍ
: پانی
فَاَحْيَا
: پھر زندہ کیا
بِهِ
: اس سے
الْاَرْضَ
: زمین
بَعْدَ مَوْتِهَا
: اس کے مرنے کے بعد
وَبَثَّ
: اور پھیلائے
فِيْهَا
: اس میں
مِنْ
: سے
كُلِّ
: ہر قسم
دَآبَّةٍ
: جانور
وَّتَصْرِيْفِ
: اور بدلنا
الرِّيٰحِ
: ہوائیں
وَالسَّحَابِ
: اور بادل
الْمُسَخَّرِ
: تابع
بَيْنَ
: درمیان
السَّمَآءِ
: آسمان
وَالْاَرْضِ
: اور زمین
لَاٰيٰتٍ
: نشانیاں
لِّقَوْمٍ
: لوگوں کے لیے
يَّعْقِلُوْنَ
: ( جو) عقل والے
بےشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے میں اور کشتیوں اور جہازوں میں جو دریا میں لوگوں کے فائدے کی چیزیں لے کر رواں ہیں اور مینہ میں جس کو خدا آسمان سے برساتا اور اس سے زمین کو مرنے کے بعد زندہ (یعنی خشک ہوئے پیچھے سرسبز) کردیتا ہے اور زمین پر ہر قسم کے جانور پھیلانے میں اور ہواؤں کے چلانےمیں اور بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان گھرے رہتے ہیں۔ عقلمندوں کے لئے (خدا کی قدرت کی) نشانیاں ہیں
اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ( بیشک آسمان اور زمین کے پیدا کرنے میں) اور ان اشیاء میں جو ان میں ہیں جیسے سورج، چاند، ستارے، دریا، پہاڑ، درخت، نہریں، جواہر، نباتات، حیوانات اور زمین کے حصوں کا مختلف ہونا کوئی سرد ہے اور کوئی گرم ہے۔ ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے بسند معتبر حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ قریش نے نبی ﷺ سے کہا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ کوہ صفا کو سونا بنا دے تاکہ ہم اس کے ذریعہ سے اپنے دشمن پر غالب رہیں اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی کہ میں ان کی یہ درخواست پوری کردوں گا لیکن اس کے بعد بھی اگر انہوں نے کفر کیا تو میں انہیں ایسے عذاب میں گرفتار کروں گا کہ پھر کسی کو ایسا عذاب نہ دوں گا۔ رسول کریم ﷺ نے عرض کیا اے اللہ آپ در گذر فرمائیے اور مجھے اور میری قوم کو اپنے حال پر چھوڑ دیجئے۔ انہیں ہمیشہ راہ حق کی دعوت کروں گا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آیت : اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰات الخ نازل فرمائی اس روایت کے موافق آیت کا حاصل یہ ہوگا کہ یہ لوگ صفا کو سونا بنانے کا کیا سوال کرتے ہیں اس سے بڑی بڑی دلیلیں جو ہر وقت ان کے مشاہدہ میں رہتی ہیں موجود ہیں۔ سموات کو صیغہ جمع اور ارض کو صیغہ واحد سے ذکر فرمانے کی یہ وجہ ہے کہ کفار ستاروں کی حرکت کی وجہ سے جانتے تھے کہ آسمان متعدد ہیں اور زمین کے تکثر کی انہیں آگاہی نہ تھی اور اس مقام پر اس مضمون کو دلیل وحدانیت کے پیرایہ میں بیان فرمایا اور دلیل وہی شے ہوسکتی ہے جو مخاطب کو پہلے سے معلوم ہو۔ اس لیے سمٰوٰاتکو تو جمع لائے اور ارض کو واحد لانے پر اکتفا فرمایا اور بعض نے یہ وجہ بیان کی ہے کہ چونکہ ہر آسمان کی حقیقت مختلف ہے اس لیے اس کے تکثر کا اعتبار فرمایا اور زمین کی ماہیت میں اختلاف نہیں ہر زمین کی حقیقت مٹی ہے اس لیے اسے (1) [ اس قول کا مدار ارسطو اور اس کے کاسہ لیسوں کی فلکی تحقیقات پر ہے ارسطو اور اس کے اسلامی دور کے متبعین فارابی اور ابن سینا قائل ہیں کہ ہر آسمان کا مادہ جدا جدا ہے اور تمام عناصر کا مادہ ایک ہی ہے گویا ان کے نزدیک کائنات کے دس مادے ہیں نو مادے نو آسمانوں کے اور ایک عناصر کا کیونکہ ان کا مسلمہ ہے کہ عقول دس ہیں۔ ہر عقل اپنے ماتحت عقل اور ایک آسمان کی جاعل ہے اسی ترتیب نزولی کے موافق دسویں عقل عناصر کی جاعل ہے۔] واحد گردانا اور بعض نے کہا ہے کہ چونکہ آسمانوں کے طبقے آپس میں ایک دوسرے سے علیحدہ علیحدہ ہیں اس لیے انہیں جمع سے تعبیر فرمایا اور زمین کے طبقات ایک دوسرے سے متصل و ملتصق ہیں اسی لیے اس کو واحد قرار دیا۔ میں کہتا ہوں کہ وجہ اخیر کچھ نہیں نقش برآب ہے کیونکہ احادیث سے ثابت ہے کہ آسمان اور زمین دونوں کے طبقات میں فصل ہے فَسَوّٰھُنَّ اور سَبْعَ سَمٰوَات کی تفسیر میں ہم مفصل لکھ چکے ہیں۔ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ ( اور رات دن کی آمد و رفت میں) یعنی روز و شب کا آمد و رفت میں ایک دوسرے کے پیچھے ہونا اور موسم کے اختلاف سے رات دن کا گھٹنا بڑھنا مراد ہے کہ گرمیوں میں دن بڑا ہوتا ہے اور سردیوں میں چھوٹا۔ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ ( اور جہازوں میں جو سمندر میں چلتے ہیں) یعنی دیکھو اللہ تعالیٰ نے جہازوں کو کس طرح مسخر کیا ہے باوجودیکہ اس کے کہ ہزاروں لاکھوں من بوجھ لدا ہوتا ہے پھر بھی کیسے فراٹے سے جاتے ہیں اور غرق نہیں ہوتے فلک کا واحد اور جمع برابر ہے۔ اسی وزن پر واحد کا صیغہ آتا ہے اور یہی صیغہ جمع کا ہے جب جمع ہو تو اس کی صفت مؤنث لائی جائے گی اور جب مفرد مراد ہو تو صفت مذکر ہوگی جیسے اَبَقَ فِی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِ میں مفرد مراد ہے اور وَ کُنْتُم فِی الْفُلْکِ وَ جَرَیْنَ بِھِمْ اور تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ میں جمع مراد ہے۔ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ ( وہ چیزیں لے کر جو لوگوں کو نفع دیتی ہیں) ما یا تو مصدری ہے اس وقت یہ معنی ہوں گے کہ ” چلتے ہیں لوگوں کے نفع کے ساتھ “ یعنی ان کے چلنے میں لوگوں کا نفع ہے اور یا موصولہ ہے اس تقدیر پر یہ حاصل ہوگا کہ اشیاء نافعہ کے ساتھ چلتے ہیں ان پر سوار ہوتے اور تجارتی مال لے جاتے اور اپنے دیگرمقاصد حاصل کرتے ہیں۔ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ ( اور پانی میں جو اتارا ہے اللہ نے آسمان سے) پہلا مِن ابتدائیہ ہے اور دوسرا بیانیہ۔ فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ ( پھر حیات بخشی اس سے زمین کو) زمین کے زندہ کرنے کے یہ معنی ہیں کہ اس میں نباتات کو اگایا۔ بَعْدَ مَوْتِهَا ( بعد اس کی موت کے) زمین کی موت سے مراد خشکی اور قحط سالی ہے۔ وَبَثَّ فِيْهَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّةٍ ۠ ( اور پھیلا دیئے اس میں ہر قسم کے جانور) مطلب یہ ہے کہ زمین میں چھوٹے بڑے ہر قسم کے جانور پراگندہ اور منتشر کردیئے ان میں سے بعض جانور تو اس قدر چھوٹے ہیں کہ دکھائی بھی نہیں دیتے اور بعض اس قدر بڑے ہیں کہ بدون اللہ تعالیٰ کی مشیت اور قوت کے آدمی انہیں کسی طرح قبضہ میں نہیں لاسکتا۔ وَ بَثّ کا عطف یا تو اَنْزَلَ پر ہے یا اَحْیَا پر ہے کیونکہ جانوروں کی نشو و نما اور زندگی کا مدار سر سبزی پر ہے اور سر سبزی پانی ہی سے ہوتی ہے۔ وَّتَـصْرِيْفِ الرِّيٰحِ ( اور ہواؤں کے پھیرنے میں) ہواؤں کے پھیرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہوائیں کبھی مشرق کو اور کبھی مغرب کو چلتی ہیں، کبھی جنوب کا دورہ کرتی ہیں کبھی شمال کا اللہ کبھی مفید ہوتی ہیں کبھی مضر اللہ ایک وقت تند ہیں اور دوسرے وقت نرم، کبھی گرم ہیں کبھی ٹھنڈی جاننا چاہئے کہ سورة ذاریات میں تمام قراء نے الرِّیْحُ الْعقِیْم میں الرِّیْح کو بصیغہ واحد پڑھا ہے اور سورة روم میں الرِّیَاحَ مُبَشِّرَات میں بصیغہ جمع پڑھا ہے اور اس کے سوا جہاں کہیں بھی یہ لفظ معرف باللام واقع ہوا ہے اس میں قراء کا اختلاف ہے۔ چناچہ اس موقع پر حمزہ اور کسائی نے تصریف الریاح کو صیغہ جمع سے پڑھا ہے اور سورة کہف، سورة جاثیہ، سورة اعراف، سورة نمل اور سورة روم میں دوسری جگہ اور سورة فاطر میں بصیغہ مفرد پڑھا ہے اور ابن کثیر نے اخیر کے چار مقامات میں کسائی اور حمزہ کا اتبا کیا ہے اور ابن کثیر نے سورة فرقان میں اور حمزہ نے سورة حجر میں بصیغہ واحد پڑھا ہے اور باقی قراء نے سب مقامات میں بصیغہ جمع پڑھا ہے اور نافع نے سورة ابراہیم اور سورة شوریٰ میں الریاح صیغہ جمع سے پڑھا ہے اور دیگر قراء نے الریح مفرد پڑھا ہے اور ابو جعفر نے ان سب مقامات میں بصیغہ جمع پڑھا ہے اور لفظ ریح بلا الف و لام کے جہاں آیا ہے وہ بالاتفاق بصیغہ مفرد ہے۔ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ( اور ابر میں جو آسمان اور زمین کے درمیان روکا ہوا ہے) یعنی دیکھو آسمان اور زمین کے درمیان ابر کیسا معلق ہے نہ گرتا ہے نہ پھٹتا ہے حالانکہ اس کی طبیعت کا مقتضی یا صعود ہوگا یا نزول اور جہاں اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اسے بھیج دیتا ہے۔ ابن وھب کہتے ہیں کہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ کسی کو ان کی خبر نہیں کہ وہ کہاں سے آتی ہیں ایک کڑک، دوسری بجلی، تیسرا ابر۔ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ ( ان سب میں سمجھدار لوگوں کے لیے دلیلیں ہیں) یعنی ان اشیاء میں ان لوگوں کے لیے دلائل ہیں جو ان میں فکر کرتے اور سوچتے ہیں کہ یہ تمام (2) [ حضرت مؤلف کے اس قول کی بناء فلاسفہ اور بعض متکلمین کے اس مسلمہ پر ہے کہ شئے ممکن کی ذات الگ ہے اور اس کا وجود الگ ذات حقیقت کو کہتے ہیں اور وجود اس کی صفت زائدہ ہے گویا ذات ممکن موصوف ہے اور وجود دوسری صفات کی طرح ایک صفت لیکن امام اہل حق ابو الحسن اشعری (رح) ممکن کی ذات وجود کی عینیت کے قائل ہیں ان کا قول ہے کہ شئ کی جو ذات ہے وہی اس کا وجود ہے اور چونکہ ممکن کا وجود حادث اور واجب کا محتاج ہے اس لیے ہر ممکن اپنی ذات میں بھی کسی صانع کا محتاج ہے الخ خلاصہ دلیل یہ ہے کہ یہ سارا سنسار خود بخود نہیں ہوگیا اس کا حدوث تغیر اور نیرنگی اور بےثباتی بتارہی ہے کہ کوئی اس کا بنانے والا ہے اور چونکہ اس کے نظم میں یگانگت مناسبت اور وحدت نظام ہے اس لیے اس کا بنانے والا ضرور صاحب علم وقدرت و ارادہ ہونا چاہئے جہالت عجز کمزوری اور اضطرار سے پاک حوادث اور لوازم حدوث سے منزہ اور تمام عیوب و نقائص سے مبرا اور ظاہر ہے کہ ایسی ہستی صرف ایک ہی ہوسکتی ہے کوئی اثر شخصی مثلاً زید کا سات بج کر پانچ منٹ دو سیکنڈ اور تین پل پر پیدا ہونا دو فاعلوں کا فعل نہیں ہوسکتا یا تو کرنے والا ایک ہوگا اور دوسرا اس کا مددگار یا دوسرا اس سے متفق یا اس کا مخالف اول الذکر دونوں تقدیروں پر عجز ایک کا یا دونوں کا لازم آئے گا اور آخر الذکر تقدیر پر جو غالب ہوگا وہی مستحق الوہیت ہوگا اہل کلام کی اصطلاح میں اس دلیل کو برہان تمانع کہتے ہیں اور آیت : او کان فیہما الھۃ الا اللہ لفسد تا میں اسی کو بیان کیا گیا ہے علامہ تفتارانی نے اس دلیل کو اتنا ہی کہا ہے عقلی ہونے سے انکار کیا ہے اور اعتراض کیا ہے کہ اثر شخصی کا فاعل اگر ایک ہی ہو اور دوسرا اس سے متفق ہو تو نہ کسی کا عجز لازم آتا ہے نہ احتیاج مگر علامہ نے یہ خیال نہیں فرمایا کہ اتفاق بغیر ارتباط اقتصاری کے ممکن نہیں اور افتقار علامت حدوث ہے ‘ واللہ اعلم ] اشیاء اپنی ذات کے اعتبار سے حادث اور ممکن ہیں ان کی ذات ان کے وجود کو نہیں چاہتی اور ایسے ہی ان کے آثار جو مختلف وجود اور متعدد طریقوں سے واقع ہوتے ہیں ممکن اور حادث ہیں اب لا محالہ کوئی نہ کوئی انکا صانع ضرور ہے اور وہ صانع ایسا ہے کہ اس کی ذات خود وجود کو مقتضی ہے اور حی علیم حکیم قادر مطلق تمام صفات کمال سے آراستہ اور تمام نقائص اور عیوب سے منزہ ہے اور اس کا کوئی مماثل و معارض نہیں ہے وہ ہر صفت میں یکتا ہے کیونکہ اگر دوسرا بھی ایسا ہی قادر مان لیا جائے تو دو خرابیوں میں سے ایک خرابی ضرور لازم آئیگی یا تو ایک اثر شخصی پر دو مؤثروں کا اجتماع لازم آئیگا اور یہ محال ہے یا ایک کا عجز لازم آئیگا تو یہ مفروض کے خلاف ہے اور یا باہم ان میں نزاع لازم آئیگا اور یہ نزاع موجب فساد عالم ہے اور عالم کو ہم نہایت انتظام سے مشاہدہ کر رہے ہیں۔ معلوم ہوا کہ معبود ایک ہی ہے نیز ان لوگوں کیلئے دلائل موجود ہیں جو غور کرتے ہیں کہ مخلوق میں اللہ کی رحمت کے کس قدر آثار ہیں یہ آثار صاف بول رہے ہیں کہ پرستش اور شکر کا مستحق ایک اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک ہے۔ ابن ابی الدنیا نے کتاب التفکر میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ جناب سرور کائنات ﷺ نے اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَاف اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ لَایَاتَ لِّاُوْلِی الْاَلْبَابِکو پڑھ کر فرمایا۔ افسوس ہے اس شخص کے حال پر جو ان آیات کو پڑھے اور پھر غور و فکر نہ کرے۔ اوزاعی سے کسی نے پوچھا کہ فکر کا غایت درجہ کیا ہے فرمایا ان آیات کو پڑھے اور ان کے مضمون کو سمجھے واللہ اعلم۔
Top