Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 108
اَمْ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَسْئَلُوْا رَسُوْلَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوْسٰى مِنْ قَبْلُ١ؕ وَ مَنْ یَّتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ
اَمْ تُرِیْدُوْنَ : کیا تم چاہتے ہو اَنْ تَسْاَلُوْا : کہ سوال کرو رَسُوْلَكُمْ : اپنا رسول کَمَا : جیسے سُئِلَ : سوال کئے گئے مُوْسٰى : موسیٰ مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے وَمَنْ : اور جو يَتَبَدَّلِ : اختیار کرلے الْكُفْرَ : کفر بِالْاِیْمَانِ : ایمان کے بدلے فَقَدْ ضَلَّ : سو وہ بھٹک گیا سَوَآءَ : سیدھا السَّبِیْلِ : راستہ
کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے پیغمبر سے اسی طرح کے سوال کرو، جس طرح کے سوال پہلے موسیٰ سے کئے گئے تھے۔ اور جس شخص نے ایمان (چھوڑ کر اس) کے بدلے کفر لیا، وہ سیدھے رستے سے بھٹک گیا
اَمْ تُرِيْدُوْنَ اَنْ تَسْـــَٔـلُوْا رَسُوْلَكُمْ ( کیا تم یہ چاہتے ہو کہ سوال کرو اپنے رسول سے علامہ بغوی نے اس آیت کا شان نزول اس طرح بیان کیا ہے کہ یہود نے کہا تھا کہ آپ آسمان سے حامی کتاب ایک دفعہ لے آئیے جیسے موسیٰ ( علیہ السلام) تورات لائے تھے اس کے جواب میں یہ آیت ارشاد ہوئی اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ مشرکین نے جو یہ کہا تھا : اَوْ تَرْقٰی فِی السَّمَاء وَ لَنْ نُوْمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتّٰی تُنَزِّلَ عَلَیْنَا کتاباً نَقْرَؤہٗ ( یعنی ہم تو ہرگز آپ کا یقین نہ کریں گے یہاں تک کہ آپ چڑھ جائیں آسمان میں اور ہم ہرگز بھی چڑھنے کا یقین نہ کریں گے جب تک آپ ہم پر ایک کتاب اتار کر نہ لاویں گے جس کو ہم پڑھ لیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ابن جریرنے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ قریش نے حضور ﷺ سے کہا کوہ صفا کو آپ سونا بنا دیجئے آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اس کا سونا بنانا ممکن ہے لیکن یہ یاد رہے اگر تم نے اس کے بعد انکار اور کفر کیا تو یہ بنی اسرائیل کے خوان کی طرح ہوگا ( کہ جب انہوں نے باوجود فرمائشی خوان اترنے کے کفر کیا تو سور بنا دیئے گئے) اس کے بعد آیت کریمہ : اَم تُرِیْدُوْنَ الخ نازل ہوئی اور سدی نے نقل کیا ہے کہ عرب نے جناب رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کو لائیں تاکہ ہم اسے کھلم کھلا دیکھیں۔ اس کے جواب میں یہ آیت ارشاد ہوئی اور اسی طرح علامہ بغوی نے کہا ہے کہ عرب نے سوال کیا تھا : او تاتی باللہ والملٰءِکَۃ قبیلا ( یعنی ہم یقین نہ کریں گے جب تک لے آئے تو اللہ اور فرشتوں کو مقابل) اس پر یہ آیت اللہ تعالیٰ نے اتاری اور سدی نے ابوالعالیہ سے اس آیت کے شان نزول میں یہ بھی نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا کیا رسول اللہ اگر ہمارے گناہوں کے کفارے بھی ایسے ہی مقرر ہوتے جیسے کہ بنی اسرائیل کے لیے تھے تو بہت اچھا ہوتا۔ حضور نے فرمایا جو طریقہ حق تعالیٰ نے تمہیں عطا فرمایا ہے۔ یہی بہتر ہے بنی اسرائیل میں تو یہ تھا کہ جب کوئی ان میں سے گناہ کرتا تو وہ گناہ اس کے دروازے پر لکھ دیا جاتا۔ پھر اگر اس نے اس گناہ کا کفارہ دے دیا تو آخرت کی رسوائی اور عذاب سے محفوظ رہتا لیکن دنیوی رسوائی پھر بھی باقی رہتی تھی اور اگر کفارہ نہ دیا تو آخرت کی رسوائی اور عذاب مزید ہوجاتا تھا تمہیں تو اللہ تعالیٰ نے بہت اچھا طریقہ مرحمت فرمایا ہے چناچہ فرماتے ہیں : وَ مَنْ یَّعْمَل سُوْءً ا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ( یعنی جو کوئی گناہ کرے یا اپنے اوپر ظلم کرے پھر اللہ سے استغفار کرے تو پائے گا اللہ کو بخشنے والا مہربان) اور پنجگانہ نماز اور ایک جمعہ کی نماز دوسرے جمعہ تک اپنے درمیانی گناہوں کا کفارہ ہیں اس واقعہ کے بعد حق تعالیٰ نے آیت کریمہ : اَمْ تُریدون۔۔ نازل فرمائی : ام تریدون میں ام منقطعہ ہے اور حاصل آیت کا یہ ہے کہ اپنی طرف سے اس قسم کے سوالات نہ کیا کرو۔ علامہ بغوی نے فرمایا ہے کہ ام بمعنی ہمزہ ہے اور میم زائدہ ہے اور بعض نے کہا کہ ام بمعنی بل ( بلکہ) ہے اور ممکن ہے کہ ام متصلہ ہو اور جملہ اَمْ تَعْلَمْ ... اور جملہ ام تریدون [ الایۃ ] میں برابری ظاہر کرنے کے لیے آیا ہو اور ام تُرِیْدوْنَ کا اَلَْم تَعْلَم پر عطف ہو، رہا یہ اشکال کہ اس صورت میں معطوف و معطوف علیہ ایک حال میں نہ ہوں گے کیونکہ معطوف علیہ یعنی اَلَمْ تَعْلَمْ میں خاص حضور کو خطاب ہے اور یہاں اَمْ تُرِیْدُوْنَ میں سب کو خطاب ہے تو جواب یہ ہے کہ اگرچہ المْ تَعْلَمْ میں خطاب خاص آپ کو ہے لیکن مراد اس سے آپ اور آپ کی امت اجابت یا امت دعوت ہے اور قرینہ اسکا یہ ہے کہ آگے چل کر بخطاب عام فرماتے ہیں : وَ مَا لَکُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ وَلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ رہی یہ بات کہ صیغہ واحد کیوں استعمال فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ حضور سرور عالم ﷺ سب سے زیادہ عالم بلکہ سب کے علم کے آپ ہی منشا ہیں اس لیے آپ کو مخاطب بنایا اور مراد سب کو لیا اس تفسیر کے موافق حاصل اس آیت کا مع اس کے معطوف علیہ اَلَمْ تَعْلَمْ کے یہ ہوگا کہ اے لوگو ! کیا تم جانتے نہیں کہ آسمانوں کی اور زمین کی بادشاہت اللہ ہی کو ہے اور وہ تمام اشیاء پر قادر ہے جس طرح چاہے حکم کرتا ہے کیا یہ جانتے ہو اور جان کر بھی ویسے سوالات تراشتے ہو جیسا کہ یہود نے موسیٰ ( علیہ السلام) سے کئے تھے لیکن یہ تفسیر یعنی ام کا متصلہ ہونا وغیرہ جب ہی درست ہوسکتا ہے کہ جب دونوں آیتیں یعنی اَلَمْ تَعْلَمْ [ الا یۃ ] اور اَمْ تُرِیْدُوْنَ [ الایۃ ] کا ایک ہی وقت میں نزول ہوا ہو اور اگر مختلف اوقات میں ارشاد ہوئے ہوں تو یہ تفسیر نہیں ہوسکتی کما لا یخفی علی الماھر اور سکاکی نے کہا ہے کہ یہ ام متصلہ نہیں ہے اور علامہ نے کہا ہے کہ ام کا متصلہ ہونا یہ ہے کہ اس کے بعد مفرد واقع ہوا اور منقطع ہونا یہ ہے کہ اس کے بعد جملہ ہو۔ كَمَا سُىِٕلَ مُوْسٰى مِنْ قَبْلُ ( جس طرح سوال کئے گئے موسیٰ سے اس سے پہلے 1 ؂) موسیٰ (علیہ السلام) سے ان کی قوم نے یہ بھی سوال کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کو کھلم کھلا دکھلا دو ۔ وَمَنْ يَّتَـبَدَّلِ الْكُفْرَ بالْاِيْمَانِ ( اور جو بدل لے کفر کو ایمان سے) یعنی کھلی کھلی نشانیوں اور دلیلوں کا انکار کرے اور اپنی طرف سے نئی نئی باتیں تراش کر درخواست کرے۔ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ ( وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا) حتیٰ کہ ایمان کی سیدھی راہ سے کفر کے چاہ میں جا پڑا۔ حاصل یہ ہوا کہ ایسی باتوں کا اپنی طرف سے سوال نہ کرو ورنہ گمراہ ہوجاؤ گے۔ علماہ بغوی نے فرمایا ہے کہ جب غزوہ احد کا واقعہ ہوا تو چند یہودیوں نے حذیفہ بن الیمان اور عمار بن یاسر ؓ سے کہا کہ اگر تم حق پر ہوتے تو تم ہرگز شکست نہ کھاتے اس لیے اب مناسب یہ ہے کہ ہمارے دین میں آجاؤ کیونکہ ہماری راہ راہ ہدایت ہے اس پر ذیل کی آیت کریمہ نازل ہوئی۔
Top