Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 107
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ
اَلَمْ تَعْلَمْ : کیا نہیں جانتے تم اَنَّ اللہ : کہ اللہ لَهُ : اس کے لئے مُلْكُ : بادشاہت السَّمَاوَاتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَمَا : اور نہیں لَكُمْ : تمہارے لئے مِنْ : سے دُوْنِ اللہِ : اللہ کے سوا مِنْ : کوئی وَلِيٍّ : حامی وَ لَا : اور نہ نَصِیْرٍ : مددگار
تمہیں معلوم نہیں کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت خدا ہی کی ہے، اور خدا کے سوا تمہارا کوئی دوست اور مدد گار نہیں
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ( تم کو معلوم نہیں کہ آسمان و زمین کی سلطنت اسی اللہ کی ہے) مطلب یہ ہے کہ جب یہ معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ جو چاہے کرے اور بادشاہی آسمانوں اور زمین کی اسی کو ہے تو پھر اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور جس حکم کو چاہے منسوخ بھی کرسکتا ہے گویا کلام سابق کی یہ دلیل ہے۔ وَمَا لَكُمْ ( اور تمہارے لیے کوئی نہیں) یعنی اے کافرو تمہارے لیے عذاب کے وقت کوئی حامی و مددگار نہیں ہے۔ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ ( اللہ کے مقابل کوئی حامی اور نہ کوئی مددگار) ولی قریب کو کہتے ہیں ولی اور نصیر میں یہ فرق ہے کہ ولی کبھی نصیر سے ضعیف ہوتا ہے اور نصیر کبھی ولی نہیں ہوتا بلکہ کوئی اجنبی بھی نصیر ہوسکتا ہے اس لیے ان دونوں کے درمیان عموم و خصوص من وجہ ہے۔ واللہ اعلم۔ ابن ابی حاتم نے بطریق سعید اور عکرمہ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رافع بن حرکلیہ اور وہب بن زید یہودی نے جناب رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ اگر آپ سچے رسول ہو تو ہمارے پاس آسمان سے کوئی کتاب لے آؤ ہم اس کو پڑھیں یا زمین سے چشمے جاری کردو اگر آپ ایسا کریں گے تو ہم سب آپ کا اتباع کریں گے اس پر حق تعالیٰ نے ذیل کی آیت کریمہ ارشاد فرمائی۔
Top