Tafseer-e-Mazhari - Al-Israa : 76
وَ اِنْ كَادُوْا لَیَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِیُخْرِجُوْكَ مِنْهَا وَ اِذًا لَّا یَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِیْلًا
وَاِنْ : اور تحقیق كَادُوْا : قریب تھا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ : کہ تمہیں پھسلا ہی دیں مِنَ : سے الْاَرْضِ : زمین (مکہ) لِيُخْرِجُوْكَ : تاکہ وہ تمہیں نکال دیں مِنْهَا : یہاں سے وَاِذًا : اور اس صورت میں لَّا يَلْبَثُوْنَ : وہ نہ ٹھہرپاتے خِلٰفَكَ : تمہارے پیچھے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑا
اور قریب تھا کہ یہ لوگ تمہیں زمین (مکہ) سے پھسلا دیں تاکہ تمہیں وہاں سے جلاوطن کر دیں۔ اور اس وقت تمہارے پیچھے یہ بھی نہ رہتے مگر کم
وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِيُخْرِجُوْكَ مِنْهَا اور وہ لوگ اس سرزمین سے آپ کے قدم ہی اکھاڑنے لگے تھے تاکہ آپ کو یہاں سے نکال دیں۔ پھر اللہ نے مدینہ کو واپس جانے کا حکم دیا جبرئیل نے کہا اپنے رب سے کچھ مانگو ہر نبی کا (کوئی ایک) سوال قبول ہی کیا جاتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا مجھے مشورہ دیجئے میں کیا دعا کروں حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) نے کہا کہئے قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطَانًا نَصِیْرًا اس آیت کا نزول شام سے مدینہ کو واپس آنے کے زمانے میں راستہ میں ہوا یہ روایت مرسل اور ضعیف ہے لیکن ابن ابی حاتم نے سعید بن زہیر کی مرسل روایت اس کی تائید میں نقل کی ہے۔ سعید بن جبیر کی روایت ان الفاظ کے ساتھ ہے۔ مشرکوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا انبیاء تو شام میں رہتے تھے آپ مدینہ میں کیسے ہیں (یہ بات سن کر) رسول اللہ ﷺ نے مدینہ سے (بالکل) روانہ ہوجانے کا ارادہ کرلیا اور یہ آیت نازل ہوئی۔ ابن جریر کی ایک اور مرسل روایت میں مشرکوں کی جگہ یہودیوں کا لفظ آیا ہے۔ بغوی نے کلبی کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینے میں تشریف فرما ہوئے تو یہودیوں کو جلن کی وجہ سے آپ کا مدینہ میں قیام ناگوار ہوا اور انہوں نے عرض کیا ابوالقاسم آپ واقف ہیں کہ یہ انبیاء کی سرزمین نہیں ہے انبیاء کی سرزمین تو شام ہے وہ مقدس زمین ہے وہیں پر ابراہیم (علیہ السلام) اور دوسرے انبیاء رہتے تھے۔ اگر آپ بھی انہی کی طرح نبی ہیں تو شام کو چلے جائیے آپ جو شام کی سکونت پسند نہیں کرتے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ کو رومیوں سے ڈر لگتا ہے (اور روم کی شام میں حکومت ہے) لیکن اگر آپ اللہ کے رسول ہیں تو اللہ رومیوں سے آپ کی ضرور حفاظت کرے گا رسول اللہ ﷺ نے مدینے سے نکل کر تین میل کے فاصلے پر اور بقول بعض ذی الحلیفہ میں لشکر گاہ قائم کی تاکہ آپ کے صحابی وہاں جمع ہوجائیں (اور سب تبوک یا شام کی طرف روانہ ہوجائیں) اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ مجاہد اور قتادہ کے قول پر یہ آیت مکی ہے اور الارض سے مراد مکہ ہے۔ مشرکوں نے رسول اللہ ﷺ : کو مکہ سے نکال دینے کا ارادہ کرلیا تھا۔ مگر اللہ نے (اپنی قدرت سے) ان کو روک دیا آخرکار خود ہی ہجرت کا حکم نازل فرما دیا اور آپ نے مدینہ کو ہجرت کرلی۔ بغوی نے کہا یہ قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ اس سے پہلے مکہ والوں ہی کا حال بیان فرمایا ہے اور سورت بھی مکی ہے۔ یہ قرینہ اس آیت کو مکی قرار دے رہا ہے۔ بعض نے کہا نہ یہودیوں کے ساتھ اس آیت کی تخصیص ہے نہ مشرکوں کے ساتھ بلکہ سارے کافر مراد ہیں جو رسول اللہ ﷺ : کو سرزمین عرب سے اکھاڑ کر باہر نکال پھینکنا چاہتے تھے مگر اللہ نے ان کو ناکام کردیا اور اپنے رسول ﷺ : کو محفوظ رکھا۔ وَاِذًا لَّا يَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِيْلًا : اور ایسی صورت میں (جب کہ وہ آپ کو ابھار کر مدینہ سے نکال دیتے) وہ بھی بس تھوڑی مدت آپ کے پیچھے (یہاں) ٹھہرتے (زیادہ نہ ٹھہر سکتے اللہ ان کو بیخ و بن سے اکھاڑ دیتا) بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ (جس بات کی پیشین گوئی آیت میں کی گئی ہے) ایسا ہو بھی گیا۔ مدینہ کے یہودیوں میں سے بنی قریظہ کو قتل کردیا گیا اور بنی نضیر کو جلا وطن کردیا گیا اور حضرت عمر ؓ : کی خلافت میں خیبر کے یہودیوں کو بھی نکال دیا گیا اور مکہ سے رسول ﷺ اللہ کے نکل آنے کے بعد مشرکین مکہ کو بدر میں قتل کردیا گیا بالآخر تمام غیر مسلموں کو جزیرۃ العرب سے نکال باہر کردیا گیا۔ بعض اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ ایسا واقع نہیں ہوا اگر وہ رسول اللہ ﷺ کو ابھار کر (مدینہ سے) نکال دیتے تو ان کو بھی جڑ سے اکھاڑ دیا جاتا۔
Top