Tafseer-e-Mazhari - Al-Israa : 75
اِذًا لَّاَذَقْنٰكَ ضِعْفَ الْحَیٰوةِ وَ ضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَیْنَا نَصِیْرًا
اِذًا : اس صورت میں لَّاَذَقْنٰكَ : ہم تمہیں چکھاتے ضِعْفَ : دوگنی الْحَيٰوةِ : زندگی وَضِعْفَ : اور دوگنی الْمَمَاتِ : موت ثُمَّ : پھر لَا تَجِدُ : تم نہ پاتے لَكَ : اپنے لیے عَلَيْنَا : ہم پر (ہمارے مقابلہ میں) نَصِيْرًا : کوئی مددگار
اس وقت ہم تم کو زندگی میں (عذاب کا) دونا اور مرنے پر بھی دونا مزا چکھاتے پھر تم ہمارے مقابلے میں کسی کو اپنا مددگار نہ پاتے
ڎاِذًا لَّاَذَقْنٰكَ ضِعْفَ الْحَيٰوةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيْرًا اور اگر ایسا ہوتا تو ہم آپ کو حالت حیات میں اور بعد موت کے دہرا عذاب چکھاتے پھر آپ کو ہمارے مقابلہ میں اپنے لئے کوئی مددگار بھی نہ ملتا۔ یعنی اگر آپ ﷺ ان کی طرف مائل ہونے کے قریب بھی پہنچ جاتے تو دنیا اور آخرت میں ہم دوسروں سے دوگنے عذاب کا مزہ آپ کو چکھاتے۔ مقصد یہ کہ اس فعل کے مجرموں کو جتنا عذاب ہوگا اس سے دوگنا عذاب آپ پر ہوتا بڑے مرتبے والے کی تھوڑی فروگزاشت بھی بڑی ہوتی ہے۔ عذاب حیات سے مراد ہے عذاب دنیوی اور عذاب ممات سے مراد ہے مرنے کے بعد کا عذاب۔ بعض علماء کے نزدیک ضعف الحیات سے عذاب آخرت اور ضعف الممات سے مراد عذاب قبر ہے۔ بیہقی نے دلائل میں اور ابن ابی حاتم نے بروایت شہر بن حوشب ‘ عبدالرحمن بن غنم کا بیان نقل کیا ہے کہ یہودیوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا اگر آپ ﷺ نبی ہیں تو شام کو جائیے وہ انبیاء کی سرزمین ہے اور محشر کا مقام بھی ہے رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں کی تصدیق کی اور غزوۂ تبوک (سرحد شام) پر تشریف لے گئے۔ تبوک جانے سے آپ کا مقصد شام کو جانا تھا جب تبوک کو پہنچ گئے تو سورة بنی اسرائیل کی مندرجۂ ذیل آیات نازل ہوئیں۔
Top