Tafseer-e-Mazhari - Al-Israa : 74
وَ لَوْ لَاۤ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ اِلَیْهِمْ شَیْئًا قَلِیْلًاۗۙ
وَلَوْلَآ : اور اگر نہ اَنْ : یہ کہ ثَبَّتْنٰكَ : ہم تمہیں ثابت قدم رکھتے لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ : البتہ تم جھکنے لگتے اِلَيْهِمْ : ان کی طرف شَيْئًا : کچھ قَلِيْلًا : تھوڑا
اور اگر تم کو ثابت قدم نہ رہنے دیتے تو تم کسی قدر ان کی طرف مائل ہونے ہی لگے تھے
وَلَوْلَآ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ اِلَيْهِمْ شَـيْــــًٔـا قَلِيْلًا : تاکہ آپ اس کے سوا اور اگر ہم نے آپ کو ثابت قدم نہ بنا دیا ہوتا تو آپ ان (کے مقصد) کی طرف کچھ کچھ جھکنے کے قریب جا پہنچتے۔ لِتَفْتِرَیَ عَلَیْنَاکہ آپ ہم پر وہ بات باندھ دیں جو ہم نے وحی کے ذریعے سے آپ کے پاس نہیں بھیجی۔ اِذًاس وقت یعنی جب ایسا کر گزرتے تو وہ آپ کو اپنا رفیق بنا لیتے وَلَوْ لَا اَنْ ثَبَّتُنٰکَ اور اگر ہم آپ کو حق پر ثابت قدم نہ رکھتے اور جمائے نہ رکھتے تو قریب تھا کہ آپ ان کے مقصد کو ماننے کی طرف کسی قدر مائل ہوجاتے کیونکہ ان کا فریب سخت اور مکر شدید تھا اور آپ ﷺ : کو ان کے مسلمان ہوجانے کی بہت زیادہ خواہش تھی لیکن ہماری طرف سے آپ کا بچاؤ کردیا گیا اور آپ ﷺ ان لوگوں کے مقصد کی طرف مائل ہونے کے قرب سے بھی بچ گئے ‘ مائل ہوجانا تو بجائے خود رہا شَیْءًا قَلِیْلاً کا لفظ بتارہا ہے کہ بجائے خود صلاح و استقامت کی استعداد رسول اللہ ﷺ کے اندر اتنی کامل تھی کہ اگر اللہ کی طرف سے عصمت واجبہ نہ بھی ہوتی اور اللہ آپ کو ہر شر سے بچانے کا فیصلہ نہ بھی کردیتا۔ تب بھی آپ کی فطرت سلیم اگر گناہ کی طرف مائل ہوتی تو بہت ہی کم میلان ہوتا اور یہ ضروری نہیں کہ گناہ کی طرف ادنیٰ جھکاؤ ہونے کے بعد گناہ کا صدور ہو ہی جاتا اور اب تو احتمال ہی نہیں رہا کہ گناہ کی طرف مائل ہونے کے قریب بھی آپ پہنچ سکتے۔
Top