Tafseer-e-Mazhari - Al-Israa : 49
وَ قَالُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًا
وَقَالُوْٓا : اور وہ کہتے ہیں ءَاِذَا : کیا۔ جب كُنَّا : ہم ہوگئے عِظَامًا : ہڈیاں وَّرُفَاتًا : اور ریزہ ریزہ ءَاِنَّا : کیا ہم یقینا لَمَبْعُوْثُوْنَ : پھر جی اٹھیں گے خَلْقًا : پیدائش جَدِيْدًا : نئی
اور کہتے ہیں کہ جب ہم (مر کر بوسیدہ) ہڈیوں اور چُور چُور ہوجائیں گے تو کیا ازسرنو پیدا ہو کر اُٹھیں گے
وَقَالُوْٓا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِيْدًا اور مشرکوں نے کہا کیا جب ہم ہڈیاں اور بوسیدہ ریزے ہوگئے تو کیا ہم کو پھر بھی از سر نو تخلیق کر کے اٹھایا جائے گا۔ رُفات فرسودہ بوسیدہ ریزے ریزے۔ فتات اور حطام کا بھی یہی معنی ہے۔ قاموس میں ہے رفت یرفت (نصر ینصر) توڑ دیا ‘ ٹوٹ گیا ‘ ریزہ ریزہ ہوگیا اور ریزہ ریزہ کردیا۔ یہ لفظ لازم بھی ہے اور متعدی بھی۔ رفات بروزن غراب ‘ فرسودہ بوسیدہ ‘ ریزہ ریزہ۔ مجاہد نے رفاتاً کا ترجمہ کیا ہے خاک ‘ مٹی ‘ زندہ آدمی کے بدن میں تروتازگی اور شادابی ہوتی ہے اور بوسیدہ ہڈیاں خشک ہوتی ہیں ‘ دونوں حالتوں میں تضاد ہے اس لئے مشرکوں کو بوسیدہ ہڈیوں کے از سر نوترو تازہ ہو کر زندہ ہوجانے کا انکار تھا۔
Top