Tafseer-e-Mazhari - Al-Hijr : 72
لَعَمْرُكَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَكْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
لَعَمْرُكَ : تمہاری جان کی قسم اِنَّهُمْ : بیشک وہ لَفِيْ : البتہ میں سَكْرَتِهِمْ : اپنے نشہ يَعْمَهُوْنَ : مدہوش تھے
(اے محمد) تمہاری جان کی قسم وہ اپنی مستی میں مدہوش (ہو رہے) تھے
لعمرک انھم لفی سکرتھم یعمھون (ا اللہ نے فرمایا : اے محمد ! ) تمہاری زندگی کی قسم ! یہ لوگ درحقیقت اپنے نشہ میں سرمت ہیں۔ عَمْر اور عُمُر ہم معنی ہیں۔ عَمْر کا لفظ خفیف بھی ہے اور قسم کے موقع پر یہی لفظ بولا جاتا ہے ( عُمُرکا لفظ قسم کے موقع پر نہیں آتا) بغوی نے ابو الجوزاء کی وساطت سے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ محمد ﷺ کی جان سے زیادہ عزیز اللہ نے کسی اور کی جان نہیں پیدا کی اور آپ کی زندگی کے علاوہ کسی اور کی زندگی کی قسم نہیں کھائی (عزیز ترین چیز ہی کی قسم کھائی جاتی ہے۔ تمام جانوں میں رسول اللہ ﷺ کی جان اللہ کے نزدیک عزیز تھی ‘ اسی کی قسم کھائی) ۔ یَعْمَھُوْنَ کا معنی ہے : سرگرداں ہیں ‘ متحیر ہیں۔ یعنی جب یہ کافر اپنے نشے میں سرمست ہیں تو آپ کی نصیحت کیسے سن سکتے ہیں۔ یا یہ کلام ملائکہ کا ہے جو حضرت لوط کو خطاب کر کے انہوں نے کہا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ اے لوط ! تمہاری زندگی کی قسم ! یہ لوگ اپنے نشہ میں سرمست ہیں (تمہاری نصیحت نہیں سنیں گے۔ یا اللہ کا قول ہے اور خطاب رسول اللہ ﷺ کو ہی ہے اور اللہ نے قوم لوط کی حالت بیان کی ہے۔ مطلب اس طرح ہوگا کہ اے محمد ! آپ کی زندگی کی قسم ! قوم لوط درحقیقت اپنے نشہ میں مست تھی ‘ وہ لوط کی نصیحت نہیں سن سکتے تھے۔ مترجم)
Top