Tafseer-e-Mazhari - Al-Hijr : 50
وَ اَنَّ عَذَابِیْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْمُ
وَاَنَّ : اور یہ کہ عَذَابِيْ : میرا عذاب هُوَ : وہ (ہی) الْعَذَابُ : عذاب الْاَلِيْمُ : دردناک
اور یہ کہ میرا عذاب بھی درد دینے والا عذاب ہے
وا اللہ عذابی ھو العذاب الالیم اور یہ بھی خبر دے دو کہ میرا عذاب بھی بڑا دردناک عذاب ہے۔ ابن مردویہ نے دوسری سند سے کسی صحابی کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ باب بنی شیبہ سے برآمد ہوئے اور فرمایا : کیا میں تم کو ہنسی میں مشغول نہیں پا رہا ہوں (یعنی تم اللہ کے عذاب کی طرف سے غافل ہو اور ہنس رہے ہو) پھر پشت پھیر کر چل دئیے ‘ پھر پچھلے قدم لوٹے اور فرمایا : میں یہاں سے نکل کر حجر (سنگ اسود) تک ہی پہنچا تھا کہ حضرت جبرئیل آگئے انہوں نے کہا : محمد ﷺ ! اللہ فرماتا ہے : میرے بندوں کو تم کیوں ناامید کرتے ہو نَبِّیءْ عِبَادِیْالخ آیت کی رفتار و ترتیب میں وعدۂ مغفرت و رحمت بھی ہے اور ووعید عذاب بھی ‘ گویا گزشتہ مضمون کا خلاصہ اس آیت میں مذکور ہے اور لفظ غفور و رحیم بتارہا ہے کہ آیت سابقہ میں اَلْمُتَّقِیْنَ سے مراد وہ لوگ ہیں جو شرک سے پرہیز کرنے والے ہیں ‘ صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے بچنے والے مراد نہیں ہیں (ورنہ مغفرت کا مفہوم ہی کیا ہوگا ‘ کس چیز کی مغفرت ہوگی ؟ ) ۔ بغوی نے قتادہ کا بیان نقل کیا ہے ‘ قتادہ نے کہا : ہم کو معلوم ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر بندہ اللہ کی مقدار عفو کو جان لیتا تو حرام سے پرہیز نہ کرتا اور اگر اللہ کی مقدار عذاب کو جان لیتا تو خوف کے مارے (گویا) اس کی جان ہی تو نکل جاتی۔ ترمذی نے حسن سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ کی روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر مؤمن بندہ کو اللہ کے عذاب کا علم ہوجاتا تو پھر جنت کی امید ہی کسی کو نہ رہتی اور اگر کافر کو اللہ کی رحمت کی مقدار معلوم ہوجاتی تو جنت سے مایوس نہ ہوتا۔ صحیحین میں آیا ہے کہ حضرت ابوہریرہ نے فرمایا : میں نے سنا ‘ رسول اللہ ﷺ فرما رہے تھے : تخلیق رحمت کے دن اللہ نے سو رحمتیں پیدا کیں ‘ ننانوے رحمتیں اپنے پاس روک لیں اور ایک رحمت ساری مخلوق میں پھیلا دی۔ جو رحمتیں اللہ کے پاس ہیں ‘ اگر ان سب سے کافر واقف ہوجائے تو جنت سے ناامید نہ ہو اور جو عذاب اللہ کے پاس ہے ‘ اگر مؤمن کو اس کا علم ہوجائے تو دوزخ سے بےخوف نہ ہو) ۔ احمد اور مسلم نے حضرت سلمان کی روایت سے اور احمد و ابن ماجہ نے حضرت ابو سعید (خدری) کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آسمان و زمین کی پیدائش کے دن اللہ نے سو رحمتیں پیدا کیں ‘ ہر رحمت آسمان و زمین کے درمیانی فاصلہ کے مطابق۔ ان میں سے ایک رحمت زمین پر قائم کی جس کی وجہ سے ماں اپنے بچہ کو پیار کرتی او چرندے پرندے باہم محبت کرتے ہیں اور ننانوے رحمتیں پیچھے رکھ چھوڑی ہیں۔ قیامت کا دن ہوگا تو ان رحمتوں کو اس رحمت سے ملا کر پورا کر دے گا۔ اس آیت میں اللہ نے اپنی صفت غفور و رحیم بیان فرمائی ‘ عذاب دینے والا نہیں فرمایا (حالانکہ عذاب دنیا بھی اسی کی صفت ہے) اس سے معلوم ہوا کہ وعدہ کا پہلو وعید پر راجح ہے۔ مغفرت و رحمت ‘ غضب پر غالب ہے۔
Top