Tafseer-e-Mazhari - Al-Hijr : 47
وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ
وَنَزَعْنَا : اور ہم نے کھینچ لیا مَا : جو فِيْ : میں صُدُوْرِهِمْ : ان کے سینے مِّنْ : سے غِلٍّ : کینہ اِخْوَانًا : بھائی بھائی عَلٰي : پر سُرُرٍ : تخت (جمع) مُّتَقٰبِلِيْنَ : آمنے سامنے
اور ان کے دلوں میں جو کدورت ہوگی ان کو ہم نکال کر (صاف کر) دیں گے (گویا) بھائی بھائی تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں
ونزعنا ما فی صدورھم من غل اخوانا اور ان کے دلوں میں جو کینہ تھا ‘ ہم وہ بالکل دور کردیں گے کہ بھائی بھائی کی طرح ہوجائیں گے۔ یعنی دنیا میں ان کے آپس میں جو کینہ کشیدگی دلوں میں ہوگی (جنت میں داخل کرنے کے وقت) ہم دور کردیں گے (وہ بھائی بھائی ہوجائیں گے) غِلٍّ کینہ۔ چونکہ ایسا واقعہ آئندہ یقینی طور پر ہوگا ‘ اس لئے بصیغۂ ماضی اس کو بیان فرمایا۔ ابو نعیم نے الفتن میں اور سعید بن منصور ‘ ابن ابی شیبہ ‘ طبرانی اور ابن مردویہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت علی نے فرمایا : مجھے امید ہے کہ میں اور عثمان اور طلحہ اور زبیر انہی میں سے ہوں گے ‘ یعنی جنت میں داخلہ سے پہلے اللہ ہماری آپس کی کشیدگیوں کو دور کر دے گا۔ میں کہتا ہوں : یہ کشیدگی اس وقت ہوئی تھی جب حضرت عثمان کے خلاف فتنہ برپا کیا گیا ‘ یہاں تک کہ آپ شہید کر دئیے گئے اور حضرت طلحہ و حضرت زبیر جنگ جمل میں شہید ہوئے۔ عبد اللہ بن احمد نے زوائد الزہد میں عبدالکریم بن رشید کی روایت نقل کی ہے کہ اہل جنت ‘ جنت کے دروازے تک پہنچیں گے تو ایک ‘ دوسرے کی طرف غصہ کی نظر سے دیکھتا ہوگا ‘ لیکن اندر داخل ہوتے ہی اللہ ان کے سینوں سے کینہ نکال دے گا اور وہ بھائی بھائی ہوجائیں گے۔ یا (غِلٍّ سے مراد دنیوی کینہ نہیں ‘ بلکہ اس سے) مراد یہ ہے کہ اہل جنت کے اندر جو درجات اور مراتب قرب کے لحاظ سے تفاوت ہوگا ‘ اس پر کوئی کسی سے حسد نہیں کرے گا۔ اللہ (جذبۂ ) حسد کو ان کے دلوں سے نکال دے گا۔ علی سرر متقبلین مسہریوں پر (بیٹھے) ہوں گے آمنے سامنے۔ ہناد نے مجاہد کا قول اس آیت کے ذیل میں نقل کیا ہے کہ کسی کی پشت کسی کی طرف نہ ہوگی۔ بغوی نے لکھا ہے : بعض اخبار میں آیا ہے کہ جنتی جب جنت کے اندر اپنے مؤمن بھائی سے ملنا چاہے گا تو مسہری اس کو لے کر وہاں پہنچ جائے گی ‘ اس طرح دونوں کی ملاقات اور بات چیت ہوجائے گی۔ ابن ابی حاتم نے حضرت علی بن حسین کا قول نقل کیا ہے کہ آیت وَنَزَعنَا مَا فِیْ صُدُوْرِھِمْ مِّنْ غَلِّ کا نزول حضرت ابوبکر و حضرت عمر کے حق میں ہوا۔ سوال کیا گیا : ان دونوں میں کونسا کینہ تھا ؟ فرمایا : دور جاہلیت کا کینہ۔ بنی تمیم اور بنی عدی اور بنی ہاشم کے درمیان جاہلیت کے زمانہ میں کینہ تھا۔ جب یہ قبائل مسلمان ہوگئے تو باہم محبت کرنے لگے (ایک بار) حضرت ابوبکر کو کمر کی کچھ تکلیف ہوگئی تو حضرت علی نے اپنے ہاتھ سے گدی گرم کر کے حضرت ابوبکر کی کمر کو سینکا ‘ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔ اس قول پر آیت کا مطلب اس طرح ہوگا کہ دور جاہلیت میں لوگوں کے سینوں میں جو عداوتیں تھیں ‘ جب وہ اسلام لے آئے تو ہم نے وہ باہمی عداوتیں دور کردیں۔
Top