Tafseer-e-Mazhari - Al-Faatiha : 5
اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ
اِيَّاكَ : صرف تیری نَعْبُدُ : ہم عبادت کرتے ہیں وَ : اور اِيَّاكَ : صرف تجھ سے نَسْتَعِيْنُ : ہم مدد چاہتے ہیں
(اے پروردگار) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ( یعنی اے خدا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں) قراء نے نَسْتَعِیْنُ کے نون کو اور نہ صرف نستعین ہی کے نون کو بلکہ ہر مضموم حرف کو بحالت وقف روم اور اشمام دونوں طرح سے پڑھا ہے (آیۃ کے خلاصہ) معنی یہ ہیں کہ اے خدا جو صفات مذکورہ کے ساتھ متصف ہے ہم خاص کر تیری ہی بندگی کرتے اور تجھی سے توفیق اطاعت کے خواستگار ہیں اور نہ صرف عبادت میں ہی تجھ سے امداد کے طالب ہیں بلکہ اپنے سارے چھوٹے بڑے کاموں میں تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں چونکہ سلسلۂ کلام میں ایک طرز سے دوسرے طرز کی طرف انتقال کرنا غیبت سے خطاب ‘ خطاب سے غیبت ‘ تکلم سے خطاب و غیبت اور غیبت و خطاب سے تکلم کی جانب التفات کرنا عرب کی عام عادت ہے اور اس سے ان کی غرض صرف سننے والے کے دل میں رغبت وشوق کا پیدا کرنا منظور ہوتا ہے اس لیے یہاں بھی اس کی رعایت کی گئی اور غیبت کے اسلوب سے خطاب کی طرف انتقال کیا گیا۔ عِبَادت اصل میں انتہاء درجہ کے خضوع اور اظہار فروتنی کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل زبان اپنے محاورات میں بولا کرتے ہیں طَرِیْقٌ مُعَبَّدٌ یعنی پامال راستہ اور نَعْبُدُ و نَسْتَعِیْنُ دونوں فعلوں میں ضمیر جمع متکلم ہے اس سے قاری اور اس کے ساتھ والے مراد ہیں اور اس میں التزام جماعت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اِیَّاکَ ( جو بلحاظ ترکیب نحوی مفعول واقع ہوا ہے اگرچہ اس کا درجہ فعل اور فاعل سے پیچھے ہے مگر یہاں) تعظیم اور اظہار اہمیت اور حصر کے فائدہ کی غرض سے مقدم کیا گیا ہے حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : نَعْبُدُ کے معنی ہیں نَعْبُدُکَ وَ لَا نَعْبُدُ غَیْرَکَ (یعنی خداوندا ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تیری عبادت میں غیر کو شریک نہیں کرتے) اس اثر کو ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے بطریق ضحاک ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے۔ بعض مفسروں کا بیان ہے کہ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ میں واؤ (عاطفہ نہیں بلکہ) حالیہ ہے اور معنی یہ ہیں کہ اے خدا ہم تجھی سے طلب امداد کرتے ہوئے تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔
Top