Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 9
وَ لَوْ جَعَلْنٰهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنٰهُ رَجُلًا وَّ لَلَبَسْنَا عَلَیْهِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر جَعَلْنٰهُ : ہم اسے بناتے مَلَكًا : فرشتہ لَّجَعَلْنٰهُ : تو ہم اسے بناتے رَجُلًا : آدمی وَّلَلَبَسْنَا : ہم شبہ ڈالتے عَلَيْهِمْ : ان پر مَّا يَلْبِسُوْنَ : جو وہ شبہ کرتے ہیں
اور اگر ہم اس کو فرشتہ ہی تجویز کرتے تو اسے بھی آدمی ہی بناتے اور ان پر (پھر) وہی اشتباہ ڈالتے جس اشتباہ میں وہ اب (پڑے ہوئے) ہیں،13 ۔
13 ۔ اور یہ لوگ اس انسان نما فرشتہ کے باب میں وہی اشکالات اور احتمالات اور وہی کج، بحثیاں پیدا کرتے اور وہی کٹھ حجتی نکالتے جو رسول اللہ ﷺ سے متعلق کررہیے ہیں۔ (آیت) ” ولوجعلنہ “۔ اس کو یعنی اس بھیجی ہوئی ہستی کو۔ ای لجعناالرسول ملکا (بحر) الضمیر للنذیر المحدث للناس (روح) (آیت) ” ملکا “۔ فرشتہ یعنی وہ نورانی ہستی جسے انسان نہ اپنے عام ومعروف حواس سے دیکھ سکتا اور نہ اس کے ملکات کے لحاظ سے اس کا اتباع کرسکتا ہے۔ (آیت) ” لجعلنہ رجلا “۔ یعنی اسے بھی شکل وجسم کے لحاظ سے انسان ہی بناتے کہ تم اسے اپنی ان آنکھوں سے دیکھ تو سکتے۔ (آیت) ” للبسنا علیھم “۔ اشتباہ کا اسناد حق تعالیٰ کی جانب محض تکوینی طور پر اور بہ طور پر مسبب الاسباب کے ہے۔ اس معنی میں اللہ تعالیٰ سانپ کے زہر کا بھی خالق ہے، بیماری کا بھی خالق ہے، ہر دکھ، درد کا خالق ہے۔ یہاں تک کہ شیطان کا بھی خالق ہے۔ قال لبسنا بالاضافۃ الی نفسہ علی جھۃ الخلق (قرطبی) ایمان نام ہے قلب کی ایک کیفیت اختیاری کا، باقی کوئی معجزہ قوی کا سامنے آجانا جس سے انسان ایمان لے آنے پر مجبور ہوجائے، جیسے کہ فرشتہ کو اس کی اصلی شکل پر دیکھ لینا، تو ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں ایمان اختیاری باقی کہاں رہا ؟ ایمان تو معتبر جبھی تک ہے، جب تک ایمان بالغیب ہے۔ جب انکشاف وشہود شروع ہوگیا تو ایمان مطلوب کا سوال ہی نہ رہا۔ (آیت) ” رجلا “۔ رجل کے معنی انسان کے نہیں۔ بلکہ مرد یا جنس مذکر کے ہیں اور یہیں سے بعض مفسرین نے یہ نکالا ہے کہ رسالت عورت کے لیے نہیں، صرف مرد کے لیے مخصوص ہے۔ وفیہ اشعار کماقال عصام الدین وغیرہ بان الرسول لا یکون امرأۃ وھو متفق علیہ (روح)
Top