Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 94
وَ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰى كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ تَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَآءَ ظُهُوْرِكُمْ١ۚ وَ مَا نَرٰى مَعَكُمْ شُفَعَآءَكُمُ الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّهُمْ فِیْكُمْ شُرَكٰٓؤُا١ؕ لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَیْنَكُمْ وَ ضَلَّ عَنْكُمْ مَّا كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ۠   ۧ
وَلَقَدْ : اور البتہ تحقیق جِئْتُمُوْنَا : آگئے تم ہمارے پاس فُرَادٰي : تنہا۔ اکیلے كَمَا : جیسا کہ خَلَقْنٰكُمْ : پیدا کیا تھا ہم نے تم کو اَوَّلَ : پہلی مَرَّةٍ : بار وَّتَرَكْتُمْ : اور چھوڑ آئے تھے تم مَّا : جو خَوَّلْنٰكُمْ : دیا ہم نے تم کو وَرَآءَ ظُهُوْرِكُمْ ۚ : اپنی پیٹھوں کے پیچھے وَمَا نَرٰي : اور نہیں ہم دیکھتے مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ شُفَعَآءَكُمُ : تمہارے سفارشیوں کو الَّذِيْنَ : وہ جو زَعَمْتُمْ : گمان کیا کرتے تھے تم۔ زعم رکھتے تھے تم اَنَّهُمْ : بیشک وہ فِيْكُمْ : تم میں شُرَكٰٓؤُا ۭ : شریک ہیں لَقَدْ تَّقَطَّعَ : البتہ تحقیق کٹ گئے بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان سے وَضَلَّ : اور گم ہوگیا عَنْكُمْ : تم سے مَّا كُنْتُمْ : وہ جو تھے تم تَزْعُمُوْنَ : تم گمان کیا کرتے
اور اب تو تم ہمارے پاس تنہا تنہا آئے جیسا کہ ہم نے تمہیں اول بار پیدا کیا تھا اور اپنے پیچھے چھوڑ آئے جو کچھ ہم نے تم کو دیا تھا اور ہم تمہارے ہمراہ ان شفاعت کرنے والوں کو نہیں دیکھتے جن کی نسبت تم دعوی کرتے تھے کہ وہ تمہارے معاملہ میں (ہمارے) شریک ہیں، اب تو تمہارے آپس کا تعلق ٹوٹ کررہا اور تم سے گئے گزرے ہوئے وہ دعوے جو تم کرتے رہتے تھے،140 ۔
140 ۔ یہ سارا مخاطبہ کافروں سے حشر کے دن ہوگا (آیت) ” لقد جئتمونا فرادی “۔ اب تمہارے ساتھ نہ وہ جتھے اور پارٹیاں ہیں نہ بڑے بڑے لاؤ لشکر جن پر تمہیں گھمنڈ رہا کرتا تھا، اور نہ خود تمہارے پاس کوئی لباس یا وردی ہے، خالی خولی اسی طرح آئے ہو، جس طرح دنیا میں پیدا ہوئے تھے، والمعنی جئتمونا واحد واحدا کل واحدمنکم منفردا بلااھل ولا مال ولا ولد ولا نصر ممن کان یصاحبکم فی الدنیاولم ینفعکم ما عبدتم من دون اللہ (قرطبی) ای منفردین عن الاعوان والاوثان التی زعمتم انما شفعاء کم وعن الاموال ولا ولاد وسائر ما اثرتموھا من الدنیا (روح) (آیت) ” وترکتم ما خولنکم ورآء ظھورکم “۔ مال و دولت اور دنیوی علوم وفنون وصنائع جن پر دنیا میں تم بھولے رہتے تھے، وہ سب تم کو وہیں چھوڑ آنا تھا اور آخرت میں ان میں کوئی چیز کچھ کام نہ آئی۔ (آیت) ” شفآء کم۔۔۔ شرکوا “۔ وہ تمہارے خیالی دیوتا اور بزرگ جن کے متعلق تمہیں یہ دعوی تھا کہ وہ اپنے دخل و تصرف سے تمہیں ہمارے مواخذہ عدل سے بچالیں گے، وہ سب کدھر غائب ہوگئے۔ یہ مستقل شفعاء کا عقیدہ یہود اہل توحید تک میں گھس گیا تھا اور مسیحیت کی تو بنیاد ہی کہنا چاہیے کہ کفارہ وشفاعت کے عقائد پر ہے۔
Top