Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 90
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ١ؕ قُلْ لَّاۤ اَسْئَلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْعٰلَمِیْنَ۠   ۧ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو هَدَى : ہدایت دی اللّٰهُ : اللہ فَبِهُدٰىهُمُ : سو ان کی راہ پر اقْتَدِهْ : چلو قُلْ : آپ کہ دیں لَّآ اَسْئَلُكُمْ : نہیں مانگتا میں تم سے عَلَيْهِ : اس پر اَجْرًا : کوئی اجرت اِنْ : نہیں هُوَ : یہ اِلَّا : مگر ذِكْرٰي : نصیحت لِلْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان والے
یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت کی تھی سو آپ بھی ان کے طریقہ پر چلئے آپ کہہ دیجیے میں تم سے اس پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا وہ (یعنی قرآن) تو بس ایک نصحیت ہے (دنیا) جہان والوں کے لئے،132 ۔
132 ۔ (خود انہی کے نفع ومصلحت کے لئے) (آیت) ” اقتدہ “۔ میں ہ ضمیر کی نہ سمجھی جائے کہ اصل امر تو اقتد ہے۔ ہ وقف ووصل کی ہے۔ ھاء السکت وقفا ووصلا (جلالین) الھاء للوقف (بیضاوی) (آیت) ” فبھدھم اقتدہ “۔ ان حضرات کا وہ ھدی (طریق) کیا تھا۔ ان سب نے بھی اپنے اپنے معاصر منکرین کے ہاتھوں سخت مصائب اٹھائے تھے۔ لیکن اس کے باوجود اپنی جگہ پر ثابت قدم رہے تھے، رسول اللہ ﷺ کی تسلیہ قلب کے لئے ارشاد ہورہا ہے کہ آپ ﷺ کی راہ میں یہی سب کچھ پیش آنا ہے سو آپ بھی انہی کی طرح ثابت قدم رہیے۔ (المعنی اصبر کما صبروا (قرطبی) ای اقتدابھم فی تحمل سفاھاتا الجھال فی ھذالباب (کبیر) ھدی کے دوسرے معنی توحید و اصول دین کے بھی کئے گئے ہیں۔ والمراد بھدھم طریقتھم فی الایمان باللہ وتوحیدہ و اصول الدین دون الشرائع (کشاف) ای اقتدبھم فی نفی الشرک و اثبات التوحید (کبیر) (آیت) ” لااسئلکم علیہ اجرا “۔ علیہ میں ضمیر قرآن کی جانب ہے، سنت انبیاء ایک یہ بھی ہے کہ وہ تبلیغ دین کی کوئی فیس نہیں طلب کرتے۔ یہ تو ان کا عین مشن (مقصد زندگی) ہی ہوتا ہے۔ وکان من جملۃ ھدھم ترک طلب الاجر فی ایصال الدین و ابلاغ الشریعۃ (کبیر) بعض فقہاء نے اس سے یہ استباط کیا ہے کہ تعلیم قرآن وروایت حدیث پر معاوضہ لینا درست نہیں۔ فیہ دلیل علی ان اخذ الاجر علی تعلیم القران وروایۃ الحدیث لایجوز (مدارک) (آیت) ” ان ھو الا ذکری “۔ قرآن مجید کو کوئی قصہ کہانی کی کتاب، سائنس وفلسفہ کی کتاب، تاریخ، وجغرافیہ کی کتاب، ادب ومحاضرہ کی کتاب نہ سمجھو، یہ تو تمامتر ایک ہدایت نامہ ہے۔ ایک نصیحت نامہ ہے۔ ایک دستور العمل ہے۔ (آیت) ” ذکری للعلمین “۔ ذکری کے ساتھ للعرب نہیں للعالمین فرمایا۔ یعنی اس کی ہدایت اور اس کے قانون کسی ایک ملک وقوم کے ساتھ مخصوص نہیں، سارے عالم کے لئے ہیں۔ اور اس پہلو کو فخر المفسرین فخر رازی (رح) نے نظر انداز نہیں ہونے دیا ہے، یدل علی انہ ﷺ مبعوث الی کل اھل الدنیا لا الی قوم دون قوم (کبیر) استدل بالایۃ علی عموم بعثتہ ﷺ (روح)
Top