Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 8
وَ قَالُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ مَلَكٌ١ؕ وَ لَوْ اَنْزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُوْنَ
وَقَالُوْا : اور وہ کہتے ہیں لَوْ : کیوں لَآ اُنْزِلَ : نہیں اتارا گیا عَلَيْهِ : اس پر مَلَكٌ : فرشتہ وَلَوْ : اور اگر اَنْزَلْنَا : ہم اتارتے مَلَكًا : فرشتہ لَّقُضِيَ : تو تمام ہوگیا ہوتا الْاَمْرُ : کام ثُمَّ : پھر لَا يُنْظَرُوْنَ : انہیں مہلت نہ دی جاتی
اور یہ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا،1 1 ۔ حالانکہ اگر ہم کوئی فرشتہ اتار دیتے تو قصہ ہی ختم ہوجاتا اور ان کو ذرا مہلت نہ ملتی،12 ۔
1 1 ۔ بشر محض کا رسول ہونا منکرین کی سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ اوتار مان سکتے تھے، مظہر خدا مان سکتے تھے۔ فرزند خدا مان سکتے تھے، دیویوں، دیوتاؤں کے، خدا کی بیٹیوں کے وجود کے قائل ہوسکتے تھے۔ لیکن بشر کی رسالت کو ان کا دماغ کس طرح قبول کرنے کو تیار نہ تھا، برابر ان کی طرف سے مطالبہ ” مافوق البشریت “ کا خارق عادت “ کا ہوتا رہتا تھا۔ کوئی آسمانی فرشتہ ان پیغمبر کے ساتھ لگا رہے۔ جب جاکر یہ ان کی پیغمبری کے قائل ہوں، حالانکہ قائل جب بھی نہ ہوتے ! (آیت) ” قالوا “۔ یہ کہنے والے کون تھے ؟ مشرکوں ہی کا کوئی گروہ تھا۔ وظاہر الایۃ یقتضی انھا فی کفار العرب (بحر) 12 ۔ یعنی فرشتہ کا نزول دنیا میں اس طرح کہ وہ کافروں تک کو آنکھ سے نظر آجائے۔ یہ تو دستور الہی میں عین وقوع عذاب کے وقت ہوتا ہے۔ اس کے بعد پھر مہلت کا امکان ہی کہاں ہے ؟ ” آیت قاہرہ اور پھر وہ بھی فرمائشی نازل ہونے کے وقت نہ ماننا حسب عادت الہیہ موجب اہلاک فوری ہے “۔ (تھانوی (رح) ان سنۃ اللہ جاریۃ بان عند ظھور الایۃ القاھرۃ ان لم یومنوا جاء ھم عذاب الاستیصال (کبیر) (آیت) ” قضی الامر “۔ قضاء امر سے مراد عذاب الہی کا واقع ہوجانا ہے۔ قال الحسن وقتادۃ لاھلکوا بعذاب الاستیصال (قرطبی) ای لاتم امر اھلاکھم (روح) قال ابن عباس وقتادہ والسدی لقضی الامر بعذابھم (بحر) اس احقر کے خیال میں یہ بات آتی ہے کہ ایسے کھلے ہوئے معجزات کے بعد تو اس عالم ناسوت کے گویا حجابات اٹھے جاتے ہیں اور غیبت کے پردہ کے بجائے مواجہہ گویا شہود کے میدان کا ہوجاتا ہے۔ جو عالم برزخ ہی کا دوسرا نام ہے۔ عالم برزخ کشف حقائق کا محل ہے۔ اور کافروں کی اصل حقیقت چونکہ معذب ہی ہونا ہے۔ اس لیے اس طاری شدہ عالم برزخ کے وجود میں آتے ہی اس حقیقت کا ظہور اور عذاب کا ترتب لازمی ہوجاتا ہے۔ (آیت) ’ ثم لاینظرون “۔ ثم یہاں اظہار اشدیت کے لیے ہے۔ یعنی عذاب تو واقع ہو ہی گا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ مہلت بھی ذرا نہ ملے گی۔ فی الفور واقع ہوجائے گا، گویا شدت عذاب سے بھی بڑھ کر اس کا فوری وقوع ہے۔ ومعنی ثم ما بعد ما بین الامرین قضاء الامر وعدم الانظار جعل عدم الانظار اشد من قضاء الامر لان مفاجاۃ الشدۃ اشد من نفس الشدۃ (کشاف)
Top