Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 83
وَ تِلْكَ حُجَّتُنَاۤ اٰتَیْنٰهَاۤ اِبْرٰهِیْمَ عَلٰى قَوْمِهٖ١ؕ نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ
وَتِلْكَ : اور یہ حُجَّتُنَآ : ہماری دلیل اٰتَيْنٰهَآ : ہم نے یہ دی اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم عَلٰي : پر قَوْمِهٖ : اس کی قوم نَرْفَعُ : ہم بلند کرتے ہیں دَرَجٰتٍ : درجے مَّنْ : جو۔ جس نَّشَآءُ : ہم چاہیں اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب حَكِيْمٌ : حکمت والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
یہ تھی ہماری دلیل جو ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کی قوم کے مقابلہ پر دی تھی، ہم جس کے درجے چاہتے ہیں بلند کرتے ہیں، بیشک آپ کا پروردگار بڑا حکمت والا ہے، بڑا علم والا ہے،123 ۔
123 ۔ ( اور اپنی انہی صفات حکمت کامل وعلم محیط کے ماتحت، جو کمال جس کے حال و استعداد کے مناسب ہوتا ہے، وہی اس کو عطا کرتا ہے) (آیت) ” تلک “۔ یعنی یہی مکالمہ ابراہیمی جو اوپر گزر چکا، اشارہ الی کلام تقدم (کبیر) اشارۃ الی جمیع ما احتج بہ ابراھیم (علیہ السلام) علی قومہ (کشاف) (آیت) ” علی قومہ “۔ یہ نہیں ارشاد ہوا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ دلیل خود ان کے مقابلہ میں سجھائی گئی۔ بلکہ یہ ہے کہ ان کی قوم کے مقابلہ میں بتائی گئی، علی قومہ ہے علی نفسہ نہیں ہے، یہ بجائے خود اس امر کی تائید میں ہے کہ آپ شروع ہی سے موحد تھے، شرک کے خلاف کسی دلیل ضرورت آپ کو نہیں، آپ کی قوم کو تھی۔ (آیت) تلک حجتنا اتینھا “۔ اس استدلال توحیدی کو اپنی جانب نسبت دے کر حق تعالیٰ نے اس میں اس میں شرف خصوصی اور امتیاز خاص پیدا کردیا۔ جیسے دنیوی بادشاہ موقع عظمت پر کہتے ہیں کہ یہ کام ہم نے کیا۔ لماذکرنفسہ تعالیٰ ھھنا باللفظ الدال علی العظمۃ وجب ان تکون تلک العظمۃ عظمۃ کاملۃ رفیعۃ شریفۃ وذاک یدل علی ان یتاء اللہ تعالیٰ تلک الحجۃ من اشرف النعم ومن اجل مراتب العطایا والمواھب (کبیر) (آیت) ” نرفع درجت “۔ یہ درجہ علمی وعملی ہر قسم کے ہوسکتے، اور درجات کی تنوین سے یہ ظاہر ہو رہا کہ یہ کوئی ایک مرتبہ نہیں بلکہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر بہت سے مرتبے ہوں گے، والتنوین لایدل الا علی الدرجات الکثیرۃ (کبیر) (آیت) ” من نشآء “۔ سب کچھ مشیت تکوینی کے مطابق ہوتا ہے۔ اور مشیت کبھی حکمت مطلقہ سے جدا نہیں ہوتی۔ (آیت) ” نرفع درجت من نشآء “۔ جو لوگ علم کلام میں مشغول رہتے اور اثبات توحید میں لگے رہتے ہیں، ان کے شرف مرتبہ کا پورا ثبوت اس آیت سے مل گیا۔ اور یہیں سے ان لوگوں کا رد بھی نکل آیاجو دلائل کلامی پیش کرتے رہنے کو لغو ولا حاصل بتاتے ہیں، فقہاء مفسرین نے اس استنباط پر بہت زور دیا ہے۔ لانہ تعالیٰ اثبت لابراھیم حصول الرفعۃ والفوزبالدرجات العالیۃ لاجل انہ ذکر الحجۃ فی التوحید وقررھا وذب عنھا وذلک یدل علی انہ لا مرتبۃ بعد النبوۃ والرسالۃ اعلی و اشرف من المرتبۃ (کبیر) اوضح دلالۃ علی وجوب الاستدلال علی التوحید (جصاص) فلما استدل ابراھیم علی توحید اللہ واحتج بہ علی قومہ ثبت بذلک ان علینا مثلہ (جصاص)
Top