Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 80
وَ حَآجَّهٗ قَوْمُهٗ١ؕ قَالَ اَتُحَآجُّوْٓنِّیْ فِی اللّٰهِ وَ قَدْ هَدٰىنِ١ؕ وَ لَاۤ اَخَافُ مَا تُشْرِكُوْنَ بِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ رَبِّیْ شَیْئًا١ؕ وَسِعَ رَبِّیْ كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا١ؕ اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ
وَحَآجَّهٗ : اور اس سے جھگڑا کیا قَوْمُهٗ : اس کی قوم قَالَ : اس نے کہا اَتُحَآجُّوْٓنِّىْ : کیا تم مجھ سے جھگڑتے ہو فِي : میں اللّٰهِ : اللہ وَ : اور قَدْ هَدٰىنِ : اس نے مجھے ہدایت دے دی ہے وَ : اور لَآ اَخَافُ : نہیں ڈرتا میں مَا تُشْرِكُوْنَ : جو تم شریک کرتے ہو بِهٖٓ : اس کا اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يَّشَآءَ : چاہے رَبِّيْ : میرا رب شَيْئًا : کچھ وَسِعَ : احاطہ کرلیا رَبِّيْ : میرا رب كُلَّ شَيْءٍ : ہر چیز عِلْمًا : علم اَ : کیا فَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ : سو تم نہیں سوچتے
اور ان کی قوم لگی ان سے جھگڑنے، وہ بولے کہ کیا یہ جھگڑا مجھ سے اللہ کی باب میں کرتے ہو ؟ درآنحالیکہ وہ مجھے ہدایت کرچکا ہے،119 ۔ میں ان سے نہیں ڈرتا جنہیں تم (اللہ کا) شریک ٹھیرا رہے ہو، ہاں البتہ اگر میرا پروردگار ہی کوئی امر چاہے میرا پروردگار ہر چیز کو علم سے گھیرے ہوئے ہے تو کیا تم خیال نہیں کرتے،120 ۔
119 ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس مقولہ کو حیرت واستعجاب کے لہجہ میں پڑھا جائے گا جب مفہوم پوری طرح واضح ہوگا، آپ (علیہ السلام) گویا یہ فرما رہے ہیں کہ ” اللہ کی شان “ ! تم مجھ سے بحث وجدل کرنے توحید کے مسئلہ میں چلے ہو، جو میرے اوپر بالکل کھل چکا ہے اور مجھے ہدایت علم الیقین کیا معنی عین الیقین کے ساتھ مل چکی ہے “ ! (آیت) ” حآجہ قومہ “۔ بجائے اس کے کہ قوم ابراہیم (علیہ السلام) حضرت کی صاف، سیدھی، فطری تعلیم کو مان لیتی الٹی آپ کے سر ہوگئی اور طرح طرح کی کج بحثیاں کرنے لگی، جیسا کہ ہر غبی، جاہل، مشرک قوم کا شیوہ ہے۔ (آیت) ” حآج ‘۔ کے معنی علمی مناظرہ کے نہیں، بلکہ لڑنے جھگڑنے کے ہیں، حاجہ ای خاصمہ وجادلہ (معالم) 120 ۔ (اتنا بھی کہ قادر اور عاجز کے درمیان فرق کرسکو) (آیت) ” الا ان یشآء ربی شیئا “ یعنی ہاں میرا پروردگار ہی مجھے کچھ نقصان پہنچانا چاہیے تو ہر آن اپنے ارادہ پر قادر ہے۔ وہ تمہارے دیوتاؤں کی طرح ناقص القوی محدود القدرۃ نہیں (آیت) ” وسع ربی کل شیء علما “۔ قدرت کاملہ کے ساتھی علم کامل و محیط بھی اس ذات کا خاصہ ہے۔ اہل کلدانیہ اپنے دیوتاؤں کی قدرت کاملہ کے ساتھ علم کامل کے بھی قائل نہ تھے، حضرت نے اپنی تقریر میں انہی دو صفات باری کا ذکر کرکے ان کے عقائد پر بھرپور ضرب لگا دی۔ (آیت) ” ما تشرکون بہ “۔ ماحرف موصول بےجان کیلئے آتا ہے۔ حضرت نے یہ پیرایہ بیان اختیار کرکے اوپر اشارہ کردیا کہ تمہارے دیوتا تو صفت حیات اور قدرت تک سے یکسرمحروم ہیں، وہ کیا کسی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، اور ان سے ڈرنے کے معنی ہی کیا ؟ (آیت) ” الا ان یشآء ربی “۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ مطلق لا اخاف سے ایک صورت دعوی کی پیدا ہوسکتی تھی، حضرت انبیاء (علیہ السلام) سے بڑھ کر محتاط اور کون ہوگا۔ معا (آیت) ” الا ان یشآء ربی “۔ بھی بڑھا دیا۔ (آیت) ” لا اخاف ما تشرکون بہ “۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ جب آپ نے اثبات توحید پر یہ دلائل قائم کئے تو مذہب شرک کے پرستاروں سے اور کچھ تو نہ بنا، ہاں یہ ڈراوے اور دھمکیاں دینے لگے کہ اچھا ہمارے دیوتاؤں کو چھوڑتے ہو مگر دیکھنا کہ وہ بھی تمہیں سمجھ لیں گے، ان کی قوت وغضب سے واقف نہیں ہو، تمہیں تہس نہس کرڈالیں گے، وہی باتین جو آج بھی ضعیف الاعتقاد، وہم پرست گروہ اہل توحید کے مقابلہ میں کہتا رہتا ہے۔ وقد خوفوہ ان معبوداتھم تصیبہ بسوء (کشاف) ذلک انھم قالوا لہ احذر الاصنام فانا نخاف ان تمسک بسوء من خبل اوجنون لعیبک ایاھا (معالم)
Top