Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 79
اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۚ
اِنِّىْ : بیشک میں وَجَّهْتُ : میں نے منہ موڑ لیا وَجْهِيَ : اپنا منہ لِلَّذِيْ : اس کی طرف جس فَطَرَ : بنائے السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین حَنِيْفًا : یک رخ ہو کر وَّمَآ اَنَا : اور نہیں میں مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : شرک کرنیوالے
یقیناً میں نے تو اپنا رخ یکسو ہو کر اس کی طرف کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں،118 ۔
118 ۔ (آیت) ” وجھت وجھی “۔ توجیہ وجہ یارخ کے یکسو کرنے سے مراد طاعت ہے نہ کہ لفظی معنی۔ توجیہ الوجہ الیہ کنایۃ عن الطاعۃ (کبیر) (آیت) ” للذی “۔ عام قاعدہ کا مقتضا تھا کہ یہاں الی الذی ہوتا۔ لیکن الی سے معنی سمت وجہت اور مادی مرکزیت کے پیدا ہوتے ہیں، اور حق تعالیٰ جسمیت اور جہت سے ماوراء ومنزہ ہے اس لئے بجائے الی کے صرف، ل، لایا گیا، ترک کلمۃ الی ھنا والا کتفاء بحرف اللام دلیل ظاھر علی کون المعبود متعالیا عن الحیز والجھۃ (کبیر) (آیت) ” فطر “۔ یعنی انہیں عدم سے وجود میں لایا۔ ومعنی فطر اخرجھما الی الوجود (کبیر) (آیت) ” حنیفا “۔ حنیف وہ ہے جو اور ہر معبود سے یکسو ہو کر صرف اللہ تعالیٰ کی طرف جھک جائے ،۔ قیل انہ العادل عن کل معبود دون اللہ تعالیٰ (کبیر) (آیت) ” للذی فطرالسموت والارض “۔ یہ گویا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے دعوی پر دلیل بھی ساتھ ساتھ پیش کرتے جاتے ہیں، فرماتے ہیں کہ میں تو اس خدا کا قائل ہوں جو تمہارے خود ساختہ زمینی وآسمانی خداؤں اور دیوتاؤں کا خالق ہے، سارے مکالمہ میں آپ (علیہ السلام) کوئی ایسی بات نہیں فرماتے، جس سے یہ معلوم ہو کہ آپ (علیہ السلام) پہلے کبھی مشرک تھے اور اب پہلی بار مسلم وموحد ہوئے ہیں۔
Top