Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 78
فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هٰذَا رَبِّیْ هٰذَاۤ اَكْبَرُ١ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَتْ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب رَاَ : اس نے دیکھا الشَّمْسَ : سورج بَازِغَةً : جگمگاتا ہوا قَالَ : بولے هٰذَا : یہ رَبِّيْ : میرا رب هٰذَآ : یہ اَكْبَرُ : سب سے بڑا فَلَمَّآ : پھر جب اَفَلَتْ : وہ غائب ہوگیا قَالَ : کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اِنِّىْ : بیشک میں بَرِيْٓءٌ : بیزار مِّمَّا : اس سے جو تُشْرِكُوْنَ : تم شرک کرتے ہو
پھر جب سورج کو چمکتے ہوئے دیکھا تو بولے یہی میرا پروردگار ہے، یہی سب سے بڑا لیکن جب وہ بھی غروب ہوگیا تو بولے اے لوگو میں اس شرک سے بری (اور بیزار) ہوں جو تم کیا کرتے ہو،117 ۔
117 ۔ (آیت) ” مما تشرکون “۔ جو شرک تم کیا کرتے ہو “ یہ ارشاد نہیں ہوا کہ جس شرک میں تم لوگ، میری قوم والو، مبتلا ہو، میں اس سے بری اور بیزار ہوں، (آیت) ” ھذا ربی ھذا اکبر “۔ سورج دیوتا کی پوجا دنیا میں ہمیشہ بڑی دھوم دھام سے، بڑے زوروں پر ہوا کی ہے۔ اور اہل کلدانیہ شمس پرستی میں امتیاز خاص رکھتے تھے۔ (آیت) ’ ھذا ربی “۔ تینوں موقع پر حضرت ابراہیم خلیل (علیہ السلام) کی زبان سے مشرکوں کی ترجمانی لفظ رب سے کرائی گئی ہے۔ الہ، یا اور کوئی لفظ وارد نہیں ہوا ہے۔ جاہلی قوموں کو سب سے زیادہ ٹھوکر صفت ربوبیت ہی میں کرائی گئی ہے۔ اور یہی دھوکا آج تک چلا آرہا ہے۔ سورج دیوتا یا زہرہ یا مشتری کو خالق کوئی نہیں مانتا، مشرک بس یہی کہتے ہیں کہ ہماری ضرورتیں ان سے وابستہ ہیں، ہماری دعائیں یہی سنتے ہیں، ہماری آرزوئیں یہی پوری کرتے ہیں۔ وقس علی ھذا۔ رب کا لفظ معنویت سے لبریز ہے۔
Top