Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 142
وَ مِنَ الْاَنْعَامِ حَمُوْلَةً وَّ فَرْشًا١ؕ كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌۙ
وَ : اور مِنَ : سے الْاَنْعَامِ : چوپائے حَمُوْلَةً : بار بردار (بڑے بڑے) وَّفَرْشًا : چھوٹے قد کے / زمین سے لگے ہوئے كُلُوْا : کھاؤ مِمَّا : اس سے جو رَزَقَكُمُ : دیا تمہیں اللّٰهُ : اللہ وَلَا تَتَّبِعُوْا : اور نہ پیروی کرو خُطُوٰتِ : قدم (جمع) الشَّيْطٰنِ : شیطان اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكُمْ : تمہارا عَدُوٌّ : دشمن مُّبِيْنٌ : کھلا
اور چوپایوں میں بڑے قد کے (بھی) ہیں اور چھوٹے قد کے (بھی) اللہ نے تمہیں جو کچھ دے رکھا ہے اس میں سے کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو،215 ۔ وہ تو تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے
215 ۔ (کہ جس چیز کو چاہا اپنے دل سے حرام کرڈالا، اپنے دل سے حلال ٹھہرالیا) ای فی التحلیل والتحریم من عند انفسکم کما فعلہ اھل الجاھلیۃ (کبیر) ذکر شرک کی انہی صورتوں کا ہورہا ہے، جو عرب میں عام طور پر رائج تھیں۔ (آیت) ” مما رزقکم اللہ “۔ اشارہ یہ کردیا کہ یہ جانور بھی صرف اللہ ہی کے پیدا کیے ہوئے، اللہ ہی کے عطیہ ہیں۔ کسی دیوی، دیوتا کے نہیں۔ جو تم انہیں خواہ مخواہ شریک کیے لیتے ہو۔ رزق سے مراد حلال ہی جانور ہیں۔ یرید ما احلھا لکم (کبیر) جانوروں کا معاملہ بھی اسی طرح کا ہے جیسا باغ اور زراعت کا تھا۔ (آیت) ” حمولۃ وفرشا “۔ تقدیر کلام یوں سمجھی گئی ہے۔ وانشاحمولۃ وفرشامن الانعام (قرطبی) وھو الذی انشالکم من الانعام حمولۃ وفرشا (جصاص) زمخشری اور رازی دونوں نے لکھا ہے کہ ومن الانعام کا و آیت کا عطف آیت ماقبل وھو الذی انشأ جنت سے کررہی ہے۔ (آیت) ” حمولۃ “ کے معنی بڑے اور قدآور جانور کے کیے گئے ہیں، جیسے اونٹ جو بوجھ اٹھانے اور سواری اور محنت کے قابل ہوں۔ الحمولۃ ما اطاق الحمل والعمل (قرطبی) ماتحمل الاثقال (کشاف، کبیر) صالحۃ للحمل علیھا کالابل الکبائر (جلالین) (آیت) ” فرشا “۔ اور فرش وہ چھوٹے قد کے جانور ہیں، جو گوشت اور دودھ کے لیے استعمال میں آتے ہیں۔ جیسے بکری، قال ابن زید الحمولۃ مایرکب والفرش مایوکل لحمہ ویحلب (قرطبی) مایفرش للذبح (کشاف، کبیر) لاتصلح للحمل کالابل الصغار والغنم سمیت فرشا لانھا کالفرش للارض لدنوھا منھا (جلالین)
Top