Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 100
وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ الْجِنَّ وَ خَلَقَهُمْ وَ خَرَقُوْا لَهٗ بَنِیْنَ وَ بَنٰتٍۭ بِغَیْرِ عِلْمٍ١ؕ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یَصِفُوْنَ۠   ۧ
وَجَعَلُوْا : اور انہوں نے ٹھہرایا لِلّٰهِ : اللہ کا شُرَكَآءَ : شریک الْجِنَّ : جن وَخَلَقَهُمْ : حالانکہ اس نے انہیں پیدا کیا وَخَرَقُوْا : اور تراشتے ہیں لَهٗ : اس کے لیے بَنِيْنَ : بیٹے وَبَنٰتٍ : اور بیٹیاں بِغَيْرِ عِلْمٍ : علم کے بغیر (جہالت سے) سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے وَتَعٰلٰى : اور وہ بلند تر عَمَّا : اس سے جو يَصِفُوْنَ : وہ بیان کرتے ہیں
اور لوگوں نے اللہ کا شریک جنات کو قرار دے رکھا ہے درآنحالیکہ اس نے انہیں پیدا کیا ہے اور لوگوں نے اس کے لئے بیٹے اور بیٹیاں محض بےسند تراش رکھی ہیں پاک اور برتر ہے وہ اس سے جو کچھ یہ (اس کے باب میں) بیان کرتے ہیں،148 ۔
148 ۔ یہ کن لوگوں کا ذکر ہے ؟ مشرکین عرب تو یقیناً مراد ہیں، باقی دوسری جاہلی قومیں بھی مراد ہوسکتی ہیں جو بھی انہی عقائد کی ہوں (آیت) ” الجن “۔ جنات وہ ناری مخلوق ہیں۔ جو خاکی مخلوق انسان سے قبل اس پردۂ گیتی پر وجود میں آچکے تھے۔ عموما وعادۃ یہ انسان کے لئے گیر مرئی رہتے ہیں۔ ابلیس انہی کی صفت کا مخلوق ہے۔ (آیت) ” وجعلوا اللہ شرکآء الجن “۔ تقدیر کلام یوں سمجھی گئی ہے۔ وجعلو اللہ الجن شرکاء معناہ جعلوا الجن شرکاء للہ (کبیر) (آیت) ” خلقھم “۔ حالانکہ اسی اللہ نے ان مشرکوں کو پیدا کیا ہے۔ نہ کہ جنات نے۔ ابن مسعود کی قرأت وھو خلقھم نے اسے اور صاف کردیا ہے۔ والمعنی وقد علموا ان اللہ خالقھم دون الجن (بیضاوی) مطلب یہ ہے کہ ان مشرکوں کو خود تسلیم ہے کہ ہمارا خالق محض اللہ ہے، اس پر بھی یہ کیسی کج رائی ہے کہ یہ لوگ معبودیت میں جنات کو بھی شریک سمجھ رہے ہیں۔ ھم، کی ضمیر اگر جن کی جانب لی جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ اسی خدا نے ان کو بھی پیدا کیا ہے پس جنات مخلوق ہو کر معبود اور شریک خدائی کیونکر ہوئے ؛۔ یعنی وھو خلق الجن (معالم) (آیت) ” وخرقوا لہ بنین وبنت “۔ خدا کا صاحب اولاد ہونا، اپنے کو دیوتاؤں کی اولاد سمجھنا، یہ مرض مشرک قوموں میں بہت زیادہ عام اور مشترک رہا ہے۔ ہندوستان کے برہمنوں اور چھتریوں کا اپنے کو سورج بنسی اور چندر بنسی کہلانا اور اپنے کو سورج دیوتا اور چندر ماں دیوتا کی اولاد قرار دینا، یونانی شرفا کا اپنے کو خدا زادہ یا دیوتا مشہور کرنا یہ سب اسی مشرکانہ وگستاخانہ ذہنیت کے کرشمہ ہیں۔ خود مسیحیوں کا عقیدہ ابنیت الہی (حضرت مسیح (علیہ السلام) سے متعلق) بھی اسی اصل کی ایک فرع ہے۔ (آیت) ” بغیر علم “۔ یعنی ان خرافانی عقائد پر اہل شرک نہ کوئی عقلی دلیل رکھتے ہیں نہ نقلی۔ (آیت) ” سبحنہ و تعلی عما یصفون “۔ مشرکوں نے کیسے کیسے بہتان اس پر لگا رکھے ہیں۔ اس کی ذات والا صفات ہر نالائق انتساب سے بالا تر ہے۔ قولہ سبحانہ تنزیۃ للہ عن کل ملایلیق بہ (کبیر) والمقصود ھھنا تنزیہ اللہ تعالیٰ عن ھذہ الاقوال الفاسدۃ (کبیر) (آیت) سبحنہ “۔ اور تعلیٰ ۔ مقصود دونوں سے اگرچہ اثبات تنزیہ ہی ہے۔ لیکن سبحنہ کا تعلق مخلوق کی زبان سے تسبیح پڑھنے یا اثبات تنزیہ سے ہے۔ بہ خلاف اس کے (آیت) ” تعلی “۔ سے اشارہ اللہ کی ذاتی صفت تقدس نکل رہا ہے۔ عام اس سے کہ مخلوق تسبیح کرے یا نہ کرے۔ فالمراد بقولہ سبحانہ ان ھذا القائل یسبحہ وینزھہ عما لایلیق بہ والمراد بقولہ وتعالیٰ کونہ فی ذاتہ متعالیا متقدسا عن ھذہ الصفات سواہ سبحہ اولم یسبحہ فالتسبیح یرجع الی اقوال المسبحین والتعالیٰ یرجع الی صفتہ الذاتیۃ التی حصلت لذاتہ لالغیرہ (کبیر)
Top