Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 187
اُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآئِكُمْ١ؕ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ١ؕ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَیْكُمْ وَ عَفَا عَنْكُمْ١ۚ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْهُنَّ وَ ابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ١۪ وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ١۪ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَى الَّیْلِ١ۚ وَ لَا تُبَاشِرُوْهُنَّ وَ اَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ١ۙ فِی الْمَسٰجِدِ١ؕ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَقْرَبُوْهَا١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ اٰیٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
اُحِلَّ : جائز کردیا گیا لَكُمْ : تمہارے لیے لَيْلَةَ : رات الصِّيَامِ : روزہ الرَّفَثُ : بےپردہ ہونا اِلٰى : طرف (سے) نِسَآئِكُمْ : اپنی عورتوں سے بےپردہ ہونا ھُنَّ : وہ لِبَاسٌ : لباس لَّكُمْ : تمہارے لیے وَاَنْتُمْ : اور تم لِبَاسٌ : لباس لَّهُنَّ : ان کے لیے عَلِمَ : جان لیا اللّٰهُ : اللہ اَنَّكُمْ : کہ تم كُنْتُمْ : تم تھے تَخْتَانُوْنَ : خیانت کرتے اَنْفُسَكُمْ : اپنے تئیں فَتَابَ : سو معاف کردیا عَلَيْكُمْ : تم کو وَعَفَا : اور در گزر کی عَنْكُمْ : تم سے فَالْئٰنَ : پس اب بَاشِرُوْھُنَّ : ان سے ملو وَابْتَغُوْا : اور طلب کرو مَا كَتَبَ : جو لکھ دیا اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے وَكُلُوْا : اور کھاؤ وَاشْرَبُوْا : اور پیو حَتّٰى : یہاں تک کہ يَتَبَيَّنَ : واضح ہوجائے لَكُمُ : تمہارے لیے الْخَيْطُ : دھاری الْاَبْيَضُ : سفید مِنَ : سے لْخَيْطِ : دھاری الْاَسْوَدِ : سیاہ مِنَ : سے الْفَجْرِ : فجر ثُمَّ : پھر اَتِمُّوا : تم پورا کرو الصِّيَامَ : روزہ اِلَى : تک الَّيْلِ : رات وَلَا : اور نہ تُبَاشِرُوْھُنَّ : ان سے ملو وَاَنْتُمْ : جبکہ تم عٰكِفُوْنَ : اعتکاف کرنیوالے فِي الْمَسٰجِدِ : مسجدوں میں تِلْكَ : یہ حُدُوْدُ : حدیں اللّٰهِ : اللہ فَلَا : پس نہ تَقْرَبُوْھَا : اس کے قریب جاؤ كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ : واضح کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ اٰيٰتِهٖ : اپنے حکم لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَّقُوْنَ : پرہیزگار ہوجائیں
جائز کردیا گیا ہے تمہارے لیے روزوں کی رات میں اپنی بیویوں سے مشغول ہونا،675 ۔ وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو،676 ۔ اللہ کو خبر ہوگئی کہ تم اپنے کو خیانت میں مبتلا کرتے رہتے تھے،677 ۔ پس اس نے تم پر رحمت سے توجہ فرمائی، اور تم سے درگزر کردی،678 ۔ سو اب تم ان سے ملوملاؤ،679 ۔ اور اسے تلاش کرو، جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے،680 ۔ اور کھاؤ اور پیو جب تک کہ تم پر صبح کا سفید خط سیاہ خط سے نمایاں ہوجائے،681 ۔ پھر روزہ کو رات (ہونے) تک پورا کرو،682 ۔ اور بیویوں سے اس حال میں صحبت نہ کرو، جب تم اعتکاف کئے ہو مسجدوں میں،683 ۔ یہ اللہ کے ضابطے ہیں سو ان (سے نکلنے) کے قریب بھی نہ جانا،684 ۔ اللہ اسی طرح اپنے احکام لوگوں کیلئے کھول کھول کر بیان کرتا ہے،685 ۔ عجب نہیں کہ وہ پرہیزگار بن جائیں،686 ۔
675 ۔ یہ اجازت شروع میں نہ تھی۔ ابتداء روزہ کی حالت میں رات میں بھی دن ہی کی طرح بیویوں سے علیحدگی کا حکم تھا۔ شریعت اسلامی رسول اللہ ﷺ کی حیات رسالت میں بتدریج نازل ہوئی۔ کہیں تو ایسا ہوا کہ احکام شروع میں نرم تھے۔ رفتہ رفتہ سخت کیے گئے، مثلا شراب نوشی، کہ پہلے صرف ناپسند کی گئی، اور پھر ہوتے ہوتے اس کی حرمت کا حکم آگیا، اور کہیں اس کے برعکس ہوا ہے۔ یعنی ابتداء قانون سخت تھا۔ رفتہ رفتہ اس میں سہولتیں اور رعایتیں زیادہ ہوتی گئیں۔ چناچہ یہی روزہ کا معاملہ ہے کہ پہلے صحبت رات میں بھی حرام تھی، بعد کو جائز کردی گئی، رفث کے لفظی معنی شہوت انگیز کلام کے ہیں لیکن جب صیغہ متعدی میں اسے لایا جاتا ہے تو اس سے مراد صحبت یا مباشرت ہوتی ہے۔ چناچہ یہاں (آیت) ” الرفث الی نسآئکم “ ہے عداہ بالی لانہ فی معنی الافضاء (لسان) جعل کنایۃ من الجماع وعدی الی تضمنۃ معنی الافضاء (راغب) کنی بہ عن الجماع (کشاف) والمراد بہ ھھنا المباشرۃ (ابن العربی) یہیں سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ بیوی کی طرف میل ورغبت ذرا بھی کمال روحانیت وتزکیہ نفس کے منافی نہیں، جیسا کہ بہت سے مشرکانہ اور جاہلی مذہبوں نے سمجھ لیا ہے اور ماہ صیام کی طاعت و عبادت، اور بیوی سے خلوت وصحبت کے درمیان منافات ذرا بھی نہیں، جیسا کہ مذہب کے جو گیا نہ اور راہبانہ تخیل نے دلوں میں بٹھا دیا ہے۔ شریعت اسلامی نے جس چیز پر سخت پہرہ بٹھا رکھا ہے، وہ شہوت حرام اور اس کے مبادی ومقدمات ہیں، نہ کہ نفس شہوت بھوک، پیاس، نیند کی طرح جنسی بھوک بھی اگر اپنے حدود کے اندر ہے تو ایک طبعی اور بےضرر خواہش ہے۔ قصدا اور بلاضرورت شرعی روزۂ رمضان توڑ دینے کی سزا شریعت نے دو مہینے یعنی ساٹھ دن کے مسلسل روزے رکھی ہے اور شوہر وبیوی اگر اپنے مشترک سے روزہ توڑ دیں تو دونوں کی یہی سزا ہے لیکن اگر بیوی رضامند نہ ہو، اور شوہر اسے دن میں ہم بستری پر مجبور کردے، تو بیوی پر گناہ نہیں، البتہ خود جبر کا تحقق ہونا چاہیے۔ اس کے لیے صرف ایک روزہ کی قضا ہوتی ہے۔ کفارہ کی بنیاد قصد وتعمد پر ہے۔ 676 ۔ (قرب واتصال کے لحاظ سے، یا ایک دوسرے کے پردہ دار اور موجب تسکین ہونے کے لحاظ سے) گویا اردو محاورہ میں، دونوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے،۔ وہ ان کے حق میں اوڑھنا بچھونا ہیں، اور یہ ان کے حق میں، یہ لباس کی تشبیہ کس اعتبار سے ہے ؟ مختلف زبانوں سے اس کے مختلف جوابات ملتے ہیں۔ بعض نے کہا کہ ایک دوسرے کے محتاج ہونے کی بنا پر کسی نے کہا کہ اجسام کی ملابست وملامست کی بنا پر۔ وقس علی ھذا۔ لیکن غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ انسان کے حق میں لباس کا ایک وصف امتیازی اس کی پردہ پوشی ہے۔ لباس جسم کے عیبوں کو چھپاتا ہے، اس کے حسن و خوبی کو ابھارتا ہے، تشبیہ سے خاص اشارہ اسی وصف کی جانب معلوم ہوتا ہے۔ گویا ہر اسلامی خاندان میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کا پردہ پوش ہونا چاہیے، اور ایک دوسرے کی زینت کو بڑھانے والا۔ جو انتہائی گہرا رشتہ اور تعلق میاں بیوی کے درمیان ہوتا ہے۔ اس کی بنا پر ظاہر ہے کہ جتنا موقع ایک کو دوسرے کو جسمانی، اخلاقی، روحانی عیبوں اور کمزوریوں پر مطلع ہونے کا ملتا ہے اتنا نہ کسی دوست کو مل سکتا ہے نہ کسی عزیر کو، اور نہ ایک کا کوئی راز دوسرے سے مخفی رہ سکتا ہے۔ اسی صورت حال میں عورت کے اخلاق کا کمال یہی ہے کہ شوہر کی ہر کمزوری کو چھپائے، اس پر صبر کرے، اسے بہتر سے بہتر صورت میں ظاہر کرے، اور ع : ناخوش تو خوش بود برجان من کا ثبوت قدم قدم پر پیش کرے۔ علی ہذا مرد کے بھی کمال اخلاق کی یہی معراج ہے ! دونوں کی اخلاقی تکمیل کا یہ مؤثر ترین نسخہ اسلام نے باتوں باتوں میں بغیر کسی شدید اور پر تعب مجاہدہ میں ڈالے ہوئے روز مرہ کے لطیف وسہل مجاہدات کے ذریعہ بتادیا۔ یہ اس مذہب کی تعلیم ہے جو فرنگی ” محققین “ کی نظر میں پست اس لیے ہے کہ اس میں عورت کی تحقیر کی گئی ! ع : کتنا غلط یہ حرف بھی مشہور ہوگیا ! کون جھوٹ اس سے بڑھ کرسخت، کونسا اتہام اس سے بڑھ کر صریح ہوگا ؟ منوسمرتی والے ہندومذہب کا ذکر نہیں، عہد عتیق وجدید والے یہودی ونصرانی مذہبوں سے سوال ہے کہ ان کے سارے دفتر کتب واسفار میں کون سی تعلیم زن وشو کے باہمی تعلق، محبت واعتماد کے باب میں اس درجہ کی ہے ؟۔ 677 ۔ یعنی رات کو چھپ چھپ کر بیویوں سے صحبت کرتے تھے، اور جو حکم ممانعت اب تک تھا اسے بار بار توڑتے رہتے تھے۔ 678 ۔ یعنی پچھلے گناہوں کو معاف کردیا، اور آئندہ کے لئے رمضان میں رات کو بیویوں کے ساتھ خلوت اور صحبت کی اجازت دے دی۔ 679 ۔ (اپنے معمولی طریقہ پر، جیسے رمضان کے علاوہ دوسرے زمانوں میں کرتے رہتے تھے) (آیت) ” باشرو “۔ صیغہ امر ہے مراد اجازت ہے نہ کہ حکم۔ مباشرت سے مراد عورت سے صحبت کرنا ہے۔ کنایۃ عن الجماع (قرطبی) کنی بہ عن الجماع (بیضاوی) 680 ۔ (بصورت اولاد اور بطور میاں بیوی کی یکجائی کے قدرتی نتیجہ کے) (آیت) ” ماکتب اللہ لکم، مراد اولاد، اور اولاد صالح ہے۔ عمل مباشرت اگر صحیح سن میں اور مناسب وقت پر ہو، بڑی گہری طبعی لذت بھی رکھتا ہے۔ لیکن اسلام نے اس عمل سے اصلی اور بڑا مقصد افزائش نسل اور حصول اولاد رکھا ہے کہ امت کی قوت اور کثرت میں برابر کا اضافہ ہوتا رہے اور ذاتی لذت اجتماعی منفعت کا زینہ بنتی رہے ٹھیک اسی طرح جیسے کھانے پینے کی لذت طبعی ذریعہ بنتی رہتی ہے۔ فرد کی حیات وبقا کا، اور اس کی تقویت جسم کا ماقضی اللہ لکم من ولد صالح (ابن عباس ؓ یعنی الولد قالہ اکثر المفسرین (معالم) اور ابن کثیر نے اسی معنی کی تائید میں حضرت ابن عباس، ابوہریرہ، انس ؓ جیسے صحابیوں سے لے کر قاضی شریح، مجاہد، حسن بصری، ضحاک قتادہ عکرمہ، عطاء سعید بن جبیر وغیرہ اکابر تابعین تک سب کا اجماع نقل کردیا ہے۔ (آیت) ” کتب “ لکھ رکھا ہے “۔ یعنی لوح محفوظ میں۔ اپنی مشیت تکوینی میں۔ اے فی اللوح المحفوظ (معالم) اے اثبت فی اللوح من الولد (کشاف) (آیت) ” وابتغوا “۔ بعض نے (آیت) ” وابتغوا “ سے مراد شب قدر کی تلاش اور (آیت) ” کتب اللہ لکم “ کے معنی اس کے اجر وثواب کے لیے ہیں۔ لیکن اہل تحقیق نے رد کردیا ہے۔ ھو قریب من بدع التفاسیر (کشاف) (آیت) ” وابتغوا “ سے صاف اشارہ نکل رہا ہے کہ مطلوب افزائش نسل ہے، نہ کہ ارادی لاولدی یا عزل۔ قیل ھو نھی عن العزل (کشاف) قیل النھی من العزل (بیضاوی) منع حمل اور قطع نسل کی جس جدید تحریک کا اس وقت زور ہے اور جو ” ضبط تولید “ وغیرہ مختلف خوشنما ناموں سے پیش ہورہی ہے۔ قرآن مجید نے اپنے بلیغ انداز میں اس سب کی تردید کردی اور بتادیا کہ مباشرت کا جو نتیجہ قدرۃ اور طبعا نکلتا ہے، اس کی توقع رکھنا چاہیے اور اسی کا انتظار کرنا چاہیے۔ عام قاعدہ اور اصل عمومی یہی ہے باقی اجتماع تزوجی کے قدرتی نتیجوں کو بلاوجہ خاص و ضرورت شدید مصنوعی ذریعوں اور تدبیروں سے روکنا، اور ربڑ وغیرہ کے آلات کو کام میں لانا، مصیبتوں کو دور کرنا نہیں، جسمانی آلام اور اخلاقی امراض کو بڑھانا اور فرد وقوم دونوں کو نئے نئے فتنوں کی دعوت دینا ہے انتہائی سرگرم کوششوں کے باوجود اول تو ابھی تک کوئی پوری طرح ” حمل روک “ آلہ دریافت ہی نہیں ہوسکا ہے۔ ” اب تک کوئی مانع حمل ایسا نہیں دریافت ہوسکا ہے۔ جو ہر طرح قابل اطمینان ہو۔ یعنی قطعی ہو، بےضررہو، اور سادہ ہو “۔ (انسائیکلو پیڈیا برناٹیکا۔ جلد 3 ۔ صفحہ 650، طبع چہاردہم) اور پھر اگر کوئی بےخطا اور حکمی تدبیر دریافت ہو بھی گئی، تو منع حمل کی جسمانی مضرتوں کے تدارک کی کیا صورت ہوگی۔” یہ باور کرنا دشوار ہے کہ یہ عمل (امتناع) بار بار کیا جائے، اور اس کے مضراثرات مرد و عورت کے اعلی صفات پر مرتب نہ ہوں “۔ (ایضا صفحہ 65 1) یہ اگر مان بھی لیا جائے کہ جلد جلد استقرار حمل اور وضع حمل سے عورت کی صحت خراب ہوجاتی ہے، تو بھی خود طب جدید کا فتوی یہ ہے کہ عورت کو زمانہ حمل میں صنفی اعمال سے جو مہلت مل جاتی ہے، نیز وضع حمل کے بعد رضاعت وغیرہ کی مشغولی و توجہ، یہ سب عورت کی صحت کے لیے ضروری ہے اور پھر یہ بھی تو ہے کہ اولاد کی پیدائش ہمیشہ والدین کے ارادہ کی تابع نہیں رہتی۔ چناچہ ایسے والدین کی مثالیں بارہا مشاہدہ میں آچکی ہیں کہ پہلے تو انہوں نے امتناع کی صناعی تدبیریں اختیار کرکے اپنے اعظاء تولید کی صلاحیتوں کو ضائع کردیا اور پھر آگے چل کر جب اولاد کی خواہش یا ضرورت محسوس کی تو اپنی سابقہ حرکتوں پر پچھتائے ہیں “۔ یہ سب تصریحات انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا ہی سے ماخوذ تھیں، باقی متعدد دوسرے ڈاکٹروں، اور انہی میں لیڈی ڈاکٹر بھی ہیں اور سائنس کے ماہرین نے اس جدید فیش کی لغویت اور بیہودگی پر اس سے بھی زیادہ کھلے لفظوں میں کہا ہے اور اس کی طبعی مضرتیں کھول کر دکھائی ہیں خصوصا عورت کے حق میں۔ بلکہ یورپ کے متعدد ملک تو اس تحریک کے نتائج سے تنگ آکر اور طویل تجربوں کے بعد، بالآخر اس پر مجبور ہوئے کہ ماؤں کے لیے انعام قرار دیں، اور ہر نئی زچگی پر ایک نیا انعام دیں ! جرمنی، اٹلی وغیرہ سے تو یہ خبریں کئی سال سے آنا شروع ہوگئی تھیں، اور اب روس، فرانس، وغیرہ سے عین دوران جنگ میں آنے لگی ہیں ! (یہ سطور 1943 ء ؁ میں دوسری جنگ عظیم کے دوران میں لکھی جارہی ہیں۔ ) اور بالآخر بات اسی کی سچی نکلی اور اسی کی بلند رہی، جس نے کہا تھا کہ تزوجوا الولود الودود۔ شادیاں کرو زیادہ بچے پیدا کرنے والی بیویوں سے ! 681 ۔ یعنی طلوع صبح صادق تک کھانے پینے، اور ہمبستری کی اجازت ہے۔ (آیت) ” خیط الابیض۔ خیط الاسود “۔ فجر کی سفید دھاری کا سیاہ دھاری سے ممتاز ہوجانا کنایہ ہے۔ تاریکی شب کے دور ہونے اور سپیدۂ صبح کے نمودار ہونے یعنی طلوع فجر سے۔ اے بیاض النھار من سواد اللیل (راغب) یعنی بیاض النھار من سواد اللیل (معالم) خود شارع اسلام (علیہ السلام) سے یہی تفسیر مروی ہے۔ ھو سواد اللیل وبیاض النھار (بخاری) خط سے یوں بھی کنایہ رنگ سے ہوتا ہے۔ اور یہاں انہیں خط سے یوں تعبیر کیا گیا ہے۔ کہ شروع میں یہ واقعۃ دھاریاں ہی سی نظر آتی ہیں۔ الخیط فی کلامھم عبارۃ عن اللون (قرطبی) الخیط الابیض ھو اول مایبدء من الفجر (کشاف) سمیا خیطین لان کل واحد منھما یبدء فی الابتداء ممتدا کالخیط (معالم) احادیث میں بڑی تاکید کے ساتھ ترغیب دی گئی ہے کہ روزہ دار کی رات بھی حتی الامکان ذکر و عبادت میں بسر ہونی چاہیے۔ چناچہ اہل سنت نے اپنے ہاں جو نماز تراویح پر اتنا زور دیا ہے، وہ صاف اسی منشاء نبوی کی تعمیل ہے۔ مشقت و راحت، تعب ولذت کی جو خوشگوار اور حکیمانہ آمیزش، شریعت اسلامی کی ساری عبادتوں میں ہے، اس کا ایک نمایاں نمونہ یہ رمضان کے روزے ہیں، دن بھر صبر وضبط کی مشق، کھانے پینے کا انتظار جس سے کھانے پینے کا لطف اور بڑھ کر رہتا ہے۔ شام کے وقت فرحت و تفریح۔ پھر شام سے لے کر صبح تک عبادتوں اور مادی لذتوں کا ملاجلا ہوا تسلسل، یہ اسلام ہی کے خصوصیات میں سے ہے۔ (آیت) ” من الفجر “۔ فجرشرعی سے مراد صبح کاذب نہیں، جب کچھ دیر کے لیے اجالا شمال وجنوب میں معلوم ہونے لگتا ہے، بلکہ وہ نور کا تڑکا مراد ہے، جو صبح کاذب کے کچھ دیر بعد ہوتا ہے۔ اور روشنی شرقا غربا پھیلنے لگتی ہے۔ قال الجمھور ذلک الفجر المعترض فی الافق یمنۃ ویسرۃ وبھذا جاءت الخبار ومضت علیہ الاعصار (قرطبی) حدیث میں سحری میں تاخیر کرنے کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ صحیح مسلم میں سمرۃ بن جندب ؓ صحابی کی روایت درج ہے، رسول اللہ ﷺ نے خود ارشاد فرمایا ہے کہ بلال ؓ جو لوگوں کو ہوشیار کرنے کے لیے بہت سویرے اذان دے دیتے ہیں، ان کی اذان سے یا محض شمال جنوب میں روشنی دیکھ کر سحری نہ ختم کردو، بلکہ روشنی کے پھیل جانے کو (یعنی وہی شرقی غربی سپیدہ کو) معتبر جانو۔ قال قال رسول اللہ ﷺ لا یغیرنکم اذان بلال ولا ھذا البیاض لعمود الصبح الافق حتی یستطیر (کتاب الصیام، باب فضل السحور) روی الائمہ قال النبی ﷺ لایمنعنکم اذان بلال من سحور کم فانہ یوذن بلیل لیرجع قائمکم ویوقظ نائمکم (ابن العربی) بلکہ نسائی کی ایک حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرات صحابہ، بالکل صبح ہوجانے تک سحری سے شغل فرماتے رہتے۔ بس اس کا لحاظ رہتا کہ کہیں آفتاب ہی نہ نکل آئے۔ عن زید قال قلنا لحذیفۃ ای ساعۃ تسحرت مع رسول اللہ ﷺ قال ھو النھار الا ان الشمس لم تطلع (کتاب الصیام، باب السحور) (زید کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے حذیفہ صحابی ؓ سے دریافت کیا، کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ کس وقت تک سحری کھائی ہے ؟ وہ بولے کہ صبح تک، بس اتنی کسر رہ گئی تھی کہ آفتاب طلوع نہیں ہوگیا تھا) دوسری روایتیں بھی ایسی ہیں تاخیر سحور کی تائید میں ہیں ایک گروہ ادھر گیا ہے کہ سحر اس وقت تک درست ہے، جب تک راستے اور مکانوں میں صبح کی روشنی نہ پھیل جائے، قالت طائفۃ ذلک بعد طلوع الفجر وتبینہ فی الطرق والبیوت (قرطبی) اور حضرت عمر اور حضرت حذیفہ اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ جیسے صحابیوں اور متعدد تابعین سے یہ منقول ہے کہ کھانے پینے سے احتیاط اس وقت سے واجب ہے جب صبح راستوں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر ظاہر ہوجائے۔ ان الامساک یجب بتبیین الفجر فی الطرق وعلی رءوس الجبال (قرطبی) حالت جنابت میں اگر صبح ہوگئی اور ہنوز غسل کی نوبت نہیں آئی تو روزہ بلااختلاف جائز ہوگا۔ وفی تجویز المباشرۃ الی الصبح دلالۃ علی جواز تاخیر الغسل الیہ وصحۃ صوم من اصبح جنبا “ (ابوسعود) والجمھور من العلماء علی صحۃ صوم من طلع علی الفجر وھو وجنب (قرطبی) اذا جو زنا لہ الوطئی قبل الفجر ففی ذلک دلیل علی جواز طلوع الفطر علیہ وھو جنب وذلک جائز اجماعا (ابن العربی) (آیت) ” الی الیل “ 682 ۔ یعنی جب سے رات داخل ہونے لگے۔ یہ مطلب نہیں کہ رات کی تاریکی چھا جانے کے وقت تک روزہ رکھے رہو۔ روزہ رات آتے ہی ختم ہوجانا چاہیے، یہ نہ ہو کہ رات کا کوئی جزوروزہ میں شامل وداخل ہوجائے، الی اللیل اے الی دخول اللیل (ابن عباس ؓ فجعل اللیل غایۃ الصیام ولم تدخل فیہ (جصاص) فانہ تعالیٰ ذکرہ حد الصوم بان اخر وقتہ اقبال الیل (ابن جریر) کلمۃ الی الانتھاء الغایۃ فظاہر الایۃ ان الصوم ینتھی عند دخول اللیل (کبیر) اللیل لیس من جنس النھار فیکون اللیل خارجا عن جنس النھار (کبیر) اللیل۔ اور خود لیل کا اطلاق عربی میں دن کے خاتمہ یعنی غروب آفتاب پر معا ہوجاتا ہے۔ اور اعتبار صرف زوال آثار شمس کا کیا گیا ہے۔ اللیل من مغرب الشمس الی طلوع الفجر الصادق (قاموس۔ تاج) اللیل عقب النھار ومبدء ہ من مغرب الشمس (لسان) اس لیے آیت کے معنی صاف یہ ہوئے کہ افطار عین غروب آفتاب کے ساتھ ہوجانا چاہیے۔ یقتضی الافطار عند غروب الشمس حکما شرعیا (ابن کثیر) (آیت) ” اتموا “۔ صیغہ امر کا ہے، اور وجوب کے معنی دیتا ہے۔ امر یقتضی الوجوب من غیر خلاف (قرطبی) والامر بالاتمام ھنا للوجوب (بحر) صوم وصال یعنی بلاافطار کیے دن اور رات کے مسلسل روزہ کی ممانعت بھی اسی آیت سے بہت سے فقہاء نے نکالی ہے اور حدیث میں اس کی ممانعت صراحۃ موجود ہی ہے۔ فیہ مایقتضی النھی عن الوصال اذ اللیل غایۃ الصیام وقالتہ عائشۃ (قرطبی) فدل الایۃ علی نفی کون اللیل محل الصوم وان یکون صوم الیومین صومۃ واحدۃ وقد استنبط النبی ﷺ منھا حرمۃ الوصال (روح) معصیت کسی قسم اور کسی درجہ کی بھی ہو، مسلمان کے لیے ہر زمانہ اور ہر موسم میں حرام ہے۔ لیکن رمضان کے ماہ مبارک میں یہ ممانعت اشد واکد ہوجاتی ہے۔ روزہ دار کی رات بھی گویا عبادت میں بسر ہوتی ہے۔ اور دن تو خیر اتنی بڑی عبادت، یعنی حکم الہی کے احترام میں لذائذ نفس وطبیعت سے اجتناب میں بسر ہوتا ہی ہے۔ بدگوئی، بدنظری، بدزبانی حرام ہمیشہ ہی ہیں، رمضان میں کہنا چاہیے کہ حرام ترہوجاتی ہیں۔ پورے مہینہ بھر کے رات اور دن کا ایک ایک گھنٹہ سپاہ اسلام کی روحانی پریڈ کا زمانہ ہے۔ غفلت کسی لمحہ نہ ہونا چاہیے۔ سرڈبلو۔ ٹی آرنلڈ مسلمان نہیں مسیحی ہیں۔ تاہم جذبہ انصاف پسندی وحق گوئی سے مجبور ہو کر بیدرد مسیحی معاندین کے جواب میں لکھتے ہیں۔ ” ماہ رمضان کے روزوں کے سلسلہ میں صرف اس قدر کہنا ہے کہ دین کا یہ رکن بجائے خود اس خیال کی تردید کے لیے کافی ہے کہ اسلام کی ترویج عیش پرستیوں کے جائز کردینے سے ہوئی ہے۔ کار لائل کے بہ قول محمد ﷺ کا مذہب تن آسانی کا مذہب نہیں، سخت سخت روزے طہارت کے ضابطے، عبادت کے سخت اور پیچیدہ طریقے۔ دن میں پانچ پانچ مرتبہ نماز، شراب کی حرمت، یہ احکام جس مذہب میں ہوں، اس کی مقبولیت تن آسانیوں کا نتیجہ تو نہیں ہوسکتی “۔ (پریچنگ آف اسلام، صفحہ 4 18، طبع ثالث) ملاحظہ ہوضمیمہ، سورة بقرہ کے خاتمہ پر۔ 683 ۔ (بلکہ کسی قسم کا بھی شہوانی میل جول ان سے نہ رکھو ، (آیت) ” ولاتباشروھن “۔ لفظ مباشرت یہاں وسیع معنی میں ہے۔ یعنی عمل مجامعت کے علاوہ اس کے مقدمات ودواعی، بوس وکنار وغیرہ بھی شامل ہیں۔ انہ اللمس والقبلۃ (ابن العربی) لایمس المعتکف امراتہ ولا یباشرھا ولا یتلذذ منھا بشئی قبلۃ ولا غیرھا (ابن جریر، عن مالک بن انس) المراد بالمباشرۃ انما ھو الجماع ودواعیۃ من تقبیل ومعانقۃ ونحوذلک (ابن کثیر) یہ تفسیر حنفیہ ومالکیہ کے مسلک کے مطابق تھی۔ امام شافعی (رح) کے نزدیک یہ چیزیں اعتکاف میں کراہت پیدا کردیتی ہیں، اسے باطل نہیں کرتیں۔ اما مادون الجماع من المباشرۃ کالقبلۃ واللمس بالشموۃ فمکروہ ولا یفسد بہ الاعتکاف عند اکثر اھل العلم وھو اظھرقول الشافعی (رح) (معالم) (آیت) ” عکفون “ اعتکاف کے لغوی معنی ہیں، اپنے کو کسی شے پر روک رکھنے یا لازم کرلینے کے، اصطلاح شریعت میں اس سے مراد ہے مسجد میں بیٹھ کر اپنے کو عبادت کے لیے مقید کرلینا۔ ھو الاحتباس فی المسجد علی سبیل القربۃ (راغب) اعتکف فی المسجد۔ اے اقام بہ و لازمہ وحبس نفسہ فیہ (تاج) الاعتکاف فی اللغۃ الملازمۃ وھو فی عرف الشرع ملازمۃ طاعۃ مخصوصۃ فی وقت مخصوص علی شرط مخصوص فی موضع مخصوص (قرطبی) العکوف ھو الاقامۃ علی الشیء والاعتکاف فی الشرع ھو الاقامۃ فی المسجد علی عبادۃ اللہ (معالم) معتکف کے لے لازم ہے کہ ہر وقت مسجد ہی میں رہے سہے کھائے پیے، سوئے جاگے اور بغیر مادی یا شرعی ضرورت شدید کے مسجد سے باہر نہ نکالے۔ یجب جان لایخرج الا لما بدمنہ من حاجۃ الانسان وقضاء فرض الجمعۃ (جصاص) لیس للمعتکف ان یخرج من معتکفہ الا لما لابدلہ منہ (قرطبی) مدت اعتکاف کے زیادہ سے زیادہ ہونے کی کوئی حد نہیں۔ البتہ اقل مدت امام شافعی (رح) کے نزدیک ایک لحظہ بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن امام ابوحنفیہ (رح) اور امام مالک (رح) کے مسلک میں کم از کم ایک شب وروز ہونا چاہیے۔ واقل الاعتکاف عند مالک وابی حنیفۃ یوم ولیلۃ وقال الشافعی اقلہ لحظۃ ولاحد لاکثرہ (قرطبی) ھو غیر مقدر عن الشافعی واقلہ لحظۃ وقال مالک وابوحنیفۃ ھو مقدر بیوم ولیلۃ (ابن العربی) (آیت) ” فی المسجد “ اس سے استنباط یہ کیا گیا ہے کہ اعتکاف ہمیشہ مسجد ہی میں ہونا چاہیے۔ اجمع العلماء علی ان الاعتکاف لایکون الافی مسجد (قرطبی) البتہ عورتوں کا اعتکاف بجائے مسجد کے گھر کے کسی گوشہ میں بھی ہوسکتا ہے، جسے نماز و عبادت کے لیے مخصوص کرلیا جائے، بلکہ مسجد میں عورت کے اعتکاف کو فقہاء نے مکروہ لکھا ہے۔ انما المرأۃ فتعتکف فی مسجد بیتھا ولولم یکن لھا فی البیت مسجد تجعل موضعا فیہ متعتکف فیہ (ہدایہ) والمرأۃ تعتکف فی بیتھا (شرح وقایہ) ویکرہ فی المسجد ولا یصح فی غیر موضع صلا تھا من بیتھا (درمختار) دوسرے دنیوی معاملات مثلا لوگوں سے بات چیت کرنا حالت اعتکاف میں جائز ہیں۔ بشرطیکہ ان میں کوئی بات احترام مسجد یا آداب اعتکاف کے منافی نہ پیدا ہوجائے۔ رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارک تھی کہ ماہ مبارک کے آخری عشرہ میں پورے دس دن کے لیے مسجد میں اعتکاف فرماتے، اور علائق دنیوی سے انقطاع جو یوں بھی کامل رہتا، اس عرصہ کے لیے کامل تر ہوجاتا۔ اعتکاف مسنون یہی ہے اور اسی کو فقہاء نے سنت کفایہ قرار دیا ہے۔ یعنی بستی بھر میں اگر کوئی بھی کرلے تو پوری بستی کی طرف سے وہ سنت ادا ہوجائے گی، باقی نفس اعتکاف، ہر مدت کے لیے، ہر زمانہ میں بہرحال استحباب وفضیلت کی چیز ہے۔ روحانی قوت و توانائی کا ذخیرہ اپنے اندر بھرنے کے لیے اپنے کو روحانی و ایمانی اعتبار سے تازہ دم کرنے کے لیے اس سے بہتر اور مؤثر تر نسخہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ عین اس زمانہ میں جبکہ بیس دن کی مسلسل اطاعت و عبادت اور شب وروز کے ذکر الہی وفکر ایمانی سے روح پر صیقل ہوچکی ہو، ملکوتیت بیدار ہوچکی ہو، انسان اپنے کو چند روز کے لیے کامل یکسوئی اور نقطاع کے عالم میں لے آئے اور اخلاص وللہیت کی مشقوں کو دعاؤں سے، عبادتوں سے، ذکر وفکر سے منتہائے کمال پر پہونچا دے۔ لیکن ہر کس وناکس کا ظرف اس مرتبہ کا متحمل نہیں ہوسکتا، عجب عجب غیر متوقع صورتیں معصیت کی پیش آجاتی ہیں۔ (جیسا کہ ان سطور کے راقم نامہ سیاہ کو اپنی ذات سے متعلق تلخ وقابل نفریں تجربات ہوچکے ہیں) مثلا یہی کہ کھانا لانے والا آدمی گھر سے کھانا بہت دیر سے لایا، اور معتکف بےاختیار اس پر غصہ سے برس پڑا تو فقہاء نے کہا ہے کہ ایسی صورت میں اعتکاف نہ کرنا ہی بہتر ہے کہ معصیت شدید عبادت (اعتکاف) کے اسی طرح منافی اور ناقص ہے جس طرح نماز و طہارت کی ناقص جسمی ناپاکیاں (بول وبراز) ہیں۔ المعتکف اذا اتی کبیرۃ فسد اعتکافہ لان الکبیرۃ ضد العبادۃ کما ان الحدث ضدالطھارۃ والصلوۃ قالہ ابن خویز منداد عن مالک (قرطبی) ویکرہ الدخول فیہ لمن یخاف علیہ العجز عن الوفاء بحقوقہ (قرطبی) 684 ۔ بہت ہی برمحل یہ یاد دلا دیا گیا ہے کہ یہ سب ضابطے اور قاعدے خدائے دانا وبینا کے مقرر کیے ہوئے ہیں۔ یہ احکام وہدایات حکیم مطلق وحاکم برحق ہی کی طرف سے ہیں۔ انہیں خاطی انسانوں کے قانون قاعدہ پر قیاس کرکے معمولی باتیں نہ سمجھنا۔ (آیت) ” تلک “ سے اشارہ ان سب چھ یا سات احکام کی جانب ہے جو آیت میں مذکور ہوچکے۔ اے ھذہ الاوامر والنواھی (قرطبی) اے الاحکام الستۃ المذکورۃ (روح) 685 ۔ یعنی جس طرح اس نے یہاں روزہ، اس کے حدود واوقات، اعتکاف، اور اس کے متعلقات کے احکام تفصیل سے بیان کردیئے ہیں، اسی طرح وہ اپنے سارے ہی احکام وشرئع انسان کے سود و بہبود کے لیے تفصیل سے بیان فرماتا رہتا ہے۔ المراد انہ کما تبین ما امرکم بہ ونھاکم عنہ فی ھذا الموضع کذلک یبین سائر ادلتہ علی دینہ وشرعہ (کبیر) (آیت) ” ایتہ “ آیات سے مراد احکام یا دلائل شرعی ہیں۔ اے امرہ ونھیہ (ابن عباس ؓ اے ایاتہ الدالۃ علی بقیۃ مشروعاتہ (بحر) اے العلامات الھادیۃ الی الحق (قرطبی) 686 ۔ (ان احکام الہی پر مطلع ہوکر) احکام الہی کی عین تعمیل ہی پرہیزگاری ہے۔ (آیت) ” لعل “ سے متعلق اوپر بیان ہوچکا ہے کہ حق تعالیٰ کی طرف سے جب اس کا استعمال ہوتا ہے تو معنی میں شک وتردد نہیں بلکہ یقین کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے۔ یعنی احکام کی تعمیل تمہیں پرہیزگار بنا ہی دے گی، عمل کرکے تجربہ کرلو۔
Top