Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 186
وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ١ؕ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ١ۙ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُوْنَ
وَاِذَا : اور جب سَاَلَكَ : آپ سے پوچھیں عِبَادِيْ : میرے بندے عَنِّىْ : میرے متعلق فَاِنِّىْ : تو میں قَرِيْبٌ : قریب اُجِيْبُ : میں قبول کرتا ہوں دَعْوَةَ : دعا الدَّاعِ : پکارنے والا اِذَا : جب دَعَانِ : مجھ سے مانگے ۙفَلْيَسْتَجِيْبُوْا : پس چاہیے حکم مانیں لِيْ : میرا وَلْيُؤْمِنُوْا : اور ایمان لائیں بِيْ : مجھ پر لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَرْشُدُوْنَ : وہ ہدایت پائیں
اور جب آپ سے میرے بندے میرے باب میں دریافت کریں،670 ۔ تو میں تو قریب ہی ہوں،671 ۔ دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا کرتا ہے،672 ۔ (لوگوں کو) چاہئے کہ میرے احکام قبول کریں، اور مجھ پر ایمان لائیں،673 ۔ عجب نہیں کہ ہدایت پاجائیں،674
670 ۔ (اے پیغمبر ! ) (آیت) ” عنی “ یعنی میرے قرب وبعد سے متعلق۔ اقریب ربنا فنناجیہ ام بعید فننادیہ (بیضاوی) گمراہ قوموں نے باری تعالیٰ کے وجود کا اقرار تو بارہا کیا ہے۔ لیکن ذات باری کو انسان سے اس قدر پرے، مادی ومعنوی دونوں حیثیتوں سے فرض کیا ہے کہ وہاں تک بندوں کی رسائی گویا ممکن ہی نہیں ! (آیت) ” اذاسالک “ اہل لطائف نے اس سے یہ نکتہ نکالا ہے کہ قرب و قبول طلب پر موقوف ہے اور ک خطاب اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ یہ توسط آنحضرت ﷺ کے ساتھ مخصوص سمجھا جائے کسی اور کی طرف گمان نہ جائے۔ 671 ۔ (اور یہ آپ بندوں سے میری طرف سے کہہ دیجئے) (آیت) ” قریب “ قریب باعتبار کمال علم، یا قریب بہ اعتبار قبول دعا۔ اے قریب بالاجابۃ (ابن عباس ؓ قریب بالعلم لا یخفی علی شئی (معالم) اے بالاجابۃ وقیل بالعلم (قرطبی) علمااجابۃ لتعالیہ عن القرب مکانا (مدارک) انہ تعالیٰ یسمع دعاء ھم ویری تضرعھم اوالمراد من ھذا القرب العلم والحفظ (کبیر) قرب سے ظاہر ہے کہ قرب مادی یا مکانی تو مراد ہو ہی نہیں سکتا، قرب معنی مراد ہوگا، تمثیل لکمال علمہ بافعال العباد واقوالھم واطلاعہ علی احوالھم (بیضاوی) حق تعالیٰ کا قرب اپنے بندوں سے رہتا تو ہمیشہ ہی ہے۔ ماہ رمضان میں اس عموم میں خصوص پیدا ہوجاتا ہے اور یہ قرب یا تعلق خاص اور زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ بندوں کی تسکین اور تسلی کا کس قدر سامان اس آیت کے اندر موجود ہے ! ہمیں اپنے خدا کو ڈھونڈھنے کہیں اور نہیں جانا ہے۔ وہ تو ہم سے قریب ہی، ہم سے متصل ہی ہے۔ 672 ۔ (اور جن دعاؤں کا قبول کرنا میری حکمت کاملہ اور مشیت مطلقہ کے منافی نہیں ہوتا) (آیت) ” عنی، انی، اجیب، دعان۔ متکلم کی ساری ضمیریں آیت میں بجائے جمع کے واحد کی ہیں۔ دونوں صیغوں کا عمومی فرق ملحوظ رہے۔ صیغہ جمع عموما قدرت عظمت، قوت کا مظہر ہے، اور واحد اس کے برعکس التفات، اختصاص، توجہ کی جانب مشیر ہوتا ہے۔ اور یہاں توجہ والتفات کا مشیر ہونا تو بالکل ظاہر ہے۔ آیت کے الفاظ سے دعا کی ترغیب وتشویق بھی نکل آئی۔ اور اشارہ اس جانب بھی ہوگیا کہ دعا بندہ کا کوئی سرتاسر خود غرضانہ اور دنیوی عمل نہیں، بلکہ عین عبادت اور موجب تقرب ہے۔ ایک حدیث صحیح میں یہ مضمون آیا ہے کہ جس کے لیے دعا کا دروازہ کھل جاتا ہے یعنی دعا کی توفیق ہوجاتی ہے، اس کے لیے رحمت کا بھی دروازہ کھل جاتا ہے۔ 673 ۔ (آیت) ” فلیستجیبوالی “ یعنی میری دعوت ایمان وطاعت قبول کریں، جس طرح میں ان کی دعائے حاجات قبول کرتا ہوں۔ اذا دعوتھم للایمان والطاعۃ کما انی اجیبھم اذا دعونی لحوائجھم (مدارک) المعنی فلیجیبوا الی فی مادعوتھم الیہ من الایمان اے الطاعۃ والعمل (قرطبی۔ عن مجاہد وغیرہ) حکیم مطلق کے کسی حکم کے نامناسب ہونے کا احتمال ہی نہیں بخلاف بندوں کی درخواستوں کے کہ ان میں بہت سی نامناسب بھی ہوتی ہیں، اور اس لیے مرتبہ قبول سے محروم رہتی ہیں۔ (تھانوی (رح) (آیت) ” والیؤمنوا بی۔ “ یعنی یقین رکھیں نہ صرف میرے وجود پر بلکہ میرے حاکم ہونے پر، میرے حکیم ہونے پر، اور میری رعایت مصالح پر۔ 674 ۔ (اور ان پر فلاح دارین کا دروازہ کھل جائے) (آیت) ” لعل “ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ کلام الہی میں جب حق تعالیٰ کی طرف منسوب ہو کر یہ لفظ آتا ہے تو اس کے معنی محض امید یا احتمال کے نہیں رہتے، بلکہ اس میں یقین پایا جانے لگتا ہے۔ مراد یہ ہوئی کہ احکام الہی پر عمل کرنے اور اس کے حکیم وحاکم ہونے پر یقین رکھنے سے دروازہ فلاح دارین کا کھل کررہے گا۔
Top