Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 181
فَمَنْۢ بَدَّلَهٗ بَعْدَ مَا سَمِعَهٗ فَاِنَّمَاۤ اِثْمُهٗ عَلَى الَّذِیْنَ یُبَدِّلُوْنَهٗ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌؕ
فَمَنْ : پھر جو بَدَّلَهٗ : بدل دے اسے بَعْدَ : بعد مَا : جو سَمِعَهٗ : اس کو سنا فَاِنَّمَآ : تو صرف اِثْمُهٗ : اس کا گناہ عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ يُبَدِّلُوْنَهٗ : اسے بدلا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
پھر جو کوئی اسے اس کے سننے کے بعد بدل ڈالے، سو اس کا گناہ بس انہیں پر ہوگا جو اسے بدل ڈالیں،643 ۔ بیشک اللہ بڑا سننے والا ہے، بڑا جاننے والا ہے،644 ۔
643 ۔ (نہ کہ حاکموں پر جو عالم الغیب نہیں ہوتے، بلکہ گواہوں کے بیانات ہی پر فیصلہ کی بنیاد رکھتے ہیں) ” بدلہ “ اور ” سمعہ “ دونوں میں ضمیر وصیت کی طرف ہے۔ والضمیر فی بدلہ یرجع الی الایصاء وکذلک الضمیر فی سمعہ (قرطبی) یعنی جن گواہوں کے سامنے وصیت کی گئی کہ فلاں فلاں عزیز کو اتنا اتنا حصہ ملے، اور وہ گواہ اس میں اپنی طرف سے کچھ قطع وبرید کردیں، جس سے بعض کی حق تلفی لازم آتی ہے۔ (آیت) ” اثمہ علی الذین یبدلونہ “ یہ حاکموں، قاضیوں کو اطمینان دلایا ہے کہ تمہارا اس غلط اجراء میں کیا قصور، قصور تو بس انہی جھوٹے گواہوں کا ہے۔ 644 ۔ (آیت) ” سمیع “ َ اس پر خوب روشن ہے کہ گواہ نے کس کس طرح جھوٹ سے کام لیا، اور اصل وصیت میں کیا کیا کتر بیونت کی۔ (آیت) ” علیم “ اس پر خوب روشن ہے کہ قاضی یا ثالث ایسے موقع پر کیسا معزور وبے بس ہوتا ہے۔
Top