Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 180
كُتِبَ عَلَیْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَیْرَا١ۖۚ اِ۟لْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِیْنَؕ
كُتِبَ عَلَيْكُمْ : فرض کیا گیا تم پر اِذَا : جب حَضَرَ : آئے اَحَدَكُمُ : تمہارا کوئی الْمَوْتُ : موت اِنْ : اگر تَرَكَ : چھوڑا خَيْرَۨا : مال الْوَصِيَّةُ : وصیت لِلْوَالِدَيْنِ : ماں باپ کے لیے وَالْاَقْرَبِيْنَ : اور رشتہ دار بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق حَقًّا : لازم عَلَي : پر الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار
تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آتی معلوم ہو، بشرطیکہ کچھ مال بھی چھوڑ رہا ہو، تو وہ والدین اور عزیزوں کے حق میں معقول طریقہ سے وصیت کرجائے یہ لازم ہے پرہیزگاروں پر،642 ۔
642 ۔ یہ حکم وصیت، آیت میراث کے نزول سے (جس میں حقداروں کے حصے معین کرکے بتادیئے گئے ہیں) بہت قبل کا ہے۔ نزلت قبل نزول الفرائض والمواریث (قرطبی) اس لیے قدرۃ اب اس پر عملدر آمد اس آیت متاخر ومابعد ہی کے ماتحت ہوگا، اور اسی کو مفسرین اپنی اصطلاح میں ایک آیت کا دوسری آیت سے منسوخ ہوجانا کہتے ہیں۔ جائیداد کی تقسیم اب آیت میراث کے بموجب ہوگی۔ اور وصیت کا اب کوئی محل ہی نہ رہا، بجز جائداد کے ایک ثلث کے، کہ اتنے میں وصیت چل سکتی ہے۔ اور اس کی تصریح بھی اسی سورة النساء کی آیت میراث میں موجود ہے۔ وصیۃ کے لفظی معنی نصیحت کے ہیں، اصطلاح شریعت میں اس سے مراد وہ ہدایتیں ہوتی ہیں جو وصیت کرجانے والے کی موت کے بعد قابل عملدرآدم ہوتی ہیں۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ وصیت کی بھی کئی قسمیں ہیں :۔ ( 1) بعض وصیتوں کی تعمیل درجہ واجب میں ہے مثلا ادائے زکوٰۃ وکفارہ کی وصیت، یا ادائے امانت یا ادائے قرض کی وصیت۔ (2) بعض مستحب کا درجہ رکھتی ہیں، مثلا کسی کار خیر کیلیے وصیت کرجانا، یا کسی ایسے عزیز کو میراث دے جانا جسے حصہ نہ پہنچ رہا ہو۔ (3) بعض صرف مباح ہوتی ہیں، جیسے کسی امر جائز کے لیے وصیت کرجانا، (4) ان کے علاوہ بعض ایسی بھی ہوتی ہیں۔ جن کی تعمیل ممنوع ہے۔ وہ وصیتیں کالعدم سمجھی جائیں گی، مثلاکسی کافر حربی کے حق میں، یا کسی فعل حرام کے لیے وصیت کرجانا۔ (5) اور بعض وصیتیں موقوف کہلاتی ہیں، ان کی تعمیل شرط کے ساتھ معلق ہوتی ہے۔ مثلا ترکہ کے ایک ثلث سے زائد میں وصیت کرجانا، اس کی تعمیل دوسرے ورثاء کی رضامندی پر موقوف رہے گی، (آیت) ” الوصیۃ “ یہاں الایصاء کے معنی میں ہے اور اسی معنی کا لحاظ کرکے اس کے لیے فعل مذکر (آیت) ” کتب “ لایا گیا ہے۔ ورنہ اصل قاعدہ کے لحاظ سے فعل مؤنث ” کتبت “ آنا چاہیے تھا۔ اور تاء تانیث کے حذف کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اسم وصیت اپنے فعل سے بہت فاصلہ پر ہے اور اتنا فاصلہ حائل ہوجانے پر محاورۂ زبان میں فعل کی تاء تانیث حذف ہوجاتی ہے۔ (قرطبی) (آیت) ” خیرا “ خیر کے ایک معنی علاوہ مشہور معنی کے، مال طیب کے بھی آتے ہیں، چناچہ قرآن مجید میں اس استعمال کی مثالیں جابجا ملتی ہیں، مثلا (آیت) ” قل ما انفقتم من خیر “ ( سورة بقر) یا (آیت) ” وما تنفقوا من خیر “ ( سورة بقرہ) وقس علی ھذا بہرحال اس پر سب کا اتفاق ہے کہ یہاں خیر مال ہی کے معنی میں ہے۔ الخیر ھھنا المال من غیر خلاف (قرطبی) قال بعض العلماء انما سمی المال ھھنا خیرا تنبیھا علی معنی لطیف وھو ان الذی یحسن الوصیۃ بہ ماکان مجموعا من المال من وجہ المحمود (راغب) اے مالا کما قالہ ابن عباس و مجاھد (روح) ایک گروہ نے لفظ وجوب سے استناد کرکے کہا ہے کہ کچھ نہ کچھ وصیت بہرحال کرجانا چاہیے، دوسرے گروہ نے آیت میراث کی موجودگی میں اسے بالکل غیر ضروری ٹھیرایا ہے۔ امام نخعی (رح) کا قول اس باب میں قول فیصل کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے سامنے دونوں قسم کے اسوہ حسنہ موجود ہیں۔ ابوبکر صدیق ؓ وصیت کرگئے تھے۔ لیکن خود رسول اللہ ﷺ نے کوئی وصیت نہیں فرمائی۔ وقال النخعی مات رسول اللہ ﷺ ولم یوص وقد اوصی ابوبکر فان اوصی فحسن وان لم یوص فلاعلیہ شیء (قرطبی) (آیت) ” بالمعروف “ یعنی پسندیدہ طریقہ پر، عقل کی رعایت سے، حاجت کا لحاظ کرکے، حسن معاشرت وحسن معاملت دونوں قسم کے احکام کے موقع پر قرآن مجید میں یہ لفظ کثرت سے آیا ہے (آیت) ” علی المتقین “۔ مقین سے یہاں مراد مومنین ہیں۔ ان کے وصف تقوی کا ذکر کرکے مراد خود انہی سے لی گئی ہے۔ مراد بالمتقین المومنین وھم الذین اتقوا الکفر (بحر) والمراد بالمتقین ال مومن ون (روح)
Top