Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 163
وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ۠   ۧ
وَاِلٰهُكُمْ : اور معبود تمہارا اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : ایک (یکتا) لَآ : نہیں اِلٰهَ : عبادت کے لائق اِلَّا ھُوَ : سوائے اس کے الرَّحْمٰنُ : نہایت مہربان الرَّحِيْمُ : رحم کرنے والا
اور تمہارا خدا ایک خدا ہے، بجز اس کے کوئی خدا نہیں،587 ۔ بےانتہا رحم وکرم کرنے والا بار بار رحم کرنے والا،588 ۔
587 ۔ (اور نہ بڑا نہ چھوٹا۔ نہ ملکی نہ غیر ملکی) یہاں خطاب ساری نوع انسانی سے ہے۔ نفس وجود باری تو مشرکین عرب کو بھی تسلیم تھا، جس طرح آج بھی ساری مشرک قوموں کو تسلیم ہے۔ لیکن مشرکین علاوہ اس خدائے اعظم یا خدائے برتر کے اور بھی بہت سے چھوٹے چھوٹے خدایا دیوتا تسلیم کرتے ہیں، بلکہ مشرکین قدیم تو اپنی قوم کے علاوہ دوسری قوموں کے، یہاں تک کہ اپنی دشمن قوموں کے بھی دیوتاؤں کے وجود کے قائل تھے۔ ان کی قوت کے قائل تھے، ان کی خدائی کے قائل تھے۔ بس صرف ان کی عبادت کے منکر تھے۔ اور اس کی توجیہ یہ کرتے تھے کہ دشمن کا دیوتا بھی دشمن ہی ہوگا ! گویا خدا بھی جذبات و احساسات کے لحاظ سے انسان کا مثنی ہوتا تھا۔ قرآن نے آکر اس عقیدہ پر بھی ضرب کاری لگائی۔ اور دعوے سے بار باراعلان کیا کہ قابل پرستش وناقابل پرستش ہونا کیسا، کسی دوسرے خدایا دیوتا کا وجود ہی سرے سے نہیں، نہ بڑے کا نہ چھوٹے کا، کسی ملکی کا نہ غیر ملکی کا ! اور اللہ کے ساتھ شریک کا وجود محض وہم انسانی کی ایک اختراع ہے ! ہمارے قدیم مفسرین بھی بغیر جدید علم الاقوام (اتھنا لوجی) کی کسی تحقیق کے اس نکتہ تک پہنچ گئے تھے، ازاحۃ لان یتوھم ان فی الوجود انھا ولکن لا یستحق منہم العبادۃ (بیضاوی) 588 ۔ یعنی مظہر کامل رحمانیت کا بھی اور رحیمیت کا بھی، دونوں صفتیں اسی پر ختم ہیں۔ کوئی اس کا شریک نہ اس صفت میں، نہ اس صفت میں۔
Top