Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 161
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ مَاتُوْا وَ هُمْ كُفَّارٌ اُولٰٓئِكَ عَلَیْهِمْ لَعْنَةُ اللّٰهِ وَ الْمَلٰٓئِكَةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ كَفَرُوْا : کافر ہوئے وَمَاتُوْا : اور وہ مرگئے وَھُمْ : اور وہ كُفَّارٌ : کافر اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ عَلَيْهِمْ : ان پر لَعْنَةُ : لعنت اللّٰهِ : اللہ وَالْمَلٰٓئِكَةِ : اور فرشتے وَالنَّاسِ : اور لوگ اَجْمَعِيْنَ : تمام
بیشک جو لوگ کفر کرتے ہیں، اور مرجائیں اسی حال میں کہ وہ کافر ہیں، سو یہ وہی لوگ ہیں کہ ان پر لعنت ہے اللہ کی، اور فرشتوں کی اور آدمیوں کی سب کی،584 ۔
584 ۔ (آیت) ” اجمعین “ کا لفظ تاکید کے لیے آیا ہے، اور اس کا تعلق اللہ اور ملائکہ اور الناس تینوں سے ہے۔ محض الناس سے نہیں۔ واجمعین تاکید بالنسبۃ الی الکل لاللناس فقط (روح) (آیت) ” لعنۃ اللہ “ اہل سنت کے ہاں کسی متعین گنہگار پر لعنت کرنا ہرگز جائز نہیں، البتہ بغیر کسی کو متعین کیے ہوئے مبہم ومطلق صورت میں جائز ہے۔ مثلا یہ کہ چور پر لعنت ہو۔ فاما العاصی المعین فلایجوز لعنہ اتفاقا واما لعن العاصی مطلقا یجوزا اجمعاعا (ابن العربی) بلکہ حدیث صحیح میں تو مومن پر لعنت اس کے قتل کے مثل بتائی گئی ہے۔ وفی صحیح مسلم لعن ال مومن کقتلہ (ابن العربی) (آیت) ” وما توا وھم کفار “ بلکہ زندگی میں تو کافر متعین تک پر بھی لعنت کی اجازت نہیں۔ (آیت) ” وماتوا “ کی قید نے صاف کردیا کہ یہاں جن پر لعنت آئی ہے ان کی موت ہی کفر پر ہوچکی تھی، اور اصل مدار ختم اعمال یا وفات پر ہے۔ قال لی کثیر من اشیاخی ان الکافر المعین لایجوز لعنہ لان حالہ عند الموافاۃ لاتعلم (ابن العربی) وقد شرط اللہ تعالیٰ فی ھذہ الایۃ فی اطلاق اللعنۃ الموافاۃ علی الکفر (ابن العربی) عبرت حاصل کرنا چاہیے ان مسلمانوں کو جو اپنے کسی بھائی کو لغزش میں مبتلا دیکھ کر جھٹ اس پر لعنت بھیجنے لگتے ہیں ،
Top