Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 160
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَ اَصْلَحُوْا وَ بَیَّنُوْا فَاُولٰٓئِكَ اَتُوْبُ عَلَیْهِمْ١ۚ وَ اَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
اِلَّا : سوائے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو تَابُوْا : جنہوں نے توبہ کی وَاَصْلَحُوْا : اور اصلاح کی وَبَيَّنُوْا : اور واضح کیا فَاُولٰٓئِكَ : پس یہی لوگ ہیں اَتُوْبُ : میں معاف کرتا ہوں عَلَيْهِمْ : انہیں وَاَنَا : اور میں التَّوَّابُ : معاف کرنے والا الرَّحِيْمُ : رحم کرنے والا
البتہ جو لوگ توبہ کرلیں،579 ۔ اور درست ہوجائیں،580 ۔ اور ظاہر کردیں،581 ۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ میں ان پر متوجہ ہوجاؤں گا رحمت سے،582 ۔ اور میں بڑا توبہ قبول کرنے والا ہوں بڑا رحمت والا ہوں،583 ۔
579 (اپنے پچھلے جرائم سے) توبہ کرنے سے مراد ہے باز آنا، نادم ہونا، اور عزم ترک کے ساتھ عذر خواہی کرنا، 580 ۔ یعنی آئندہ کے لیے اپنی اصلاح حال کرلیں۔ 581 ۔ (اپنی آسمانی کتابوں کے ان مضامین کو جنہیں وہ اب تک چھپاتے رہے ہیں) یہاں مراد ہیں اسلام و پیغمبر اسلام سے متعلق پچھلے صحیفوں میں پیش خبریاں، خلاصہ یہ کہ یہ مجرم اگر ماضی پر نادم ہو کر اب بھی ایمان لے آئیں، اور تلافی مافات پر آمادہ ہوجائیں ، 582 ۔ یعنی یہ تائبین نہ صرف لعنت کی زد سے باہر ہوجاتے ہیں، بلکہ رحمت ومغفرت الہی کے ماتحت بھی آجاتے ہیں، البتہ جو لوگ اپنی انہی بدکرداریوں پر اصرار رکھتے ہیں، ان پر سزا بھی قائم رہتی ہے۔ واما الذین ماتوا علی الکتمان ولم یتوبوا عنہ فقد استقرت علیھم اللعنۃ ولم تزل عنھم (روح) (آیت) ” اصلحوا وبینوا۔ توبہ اور قبول توبہ کا مضمون قرآن مجید میں بار بار آیا ہے، یہاں توقید اصلاح اور تبیین کی لگی ہوئی۔ یعنی جو فساد پھیلایا تھا اس کی اصلاح اور جو چھپایا تھا اس کا اظہار۔ محققین نے لکھا ہے کہ جن گناہوں سے صرف اللہ حقوق اللہ کی خلاف وزری ہوتی ہے۔ مثلا نماز یا روزہ کا ترک۔ ان کے لیے محض توبہ و استغفار کافی ہے، کہ اس کا تعلق صفات رحمانیت ورحیمیت سے ہے، لیکن جن گناہوں سے بندوں کی حق تلفی لازم آتی ہے۔ مثلا قتل، چوری، رشوت، غصب، فساد، بدامنی، سود خوری، عقائد باطلہ کا اعلان، ان کے لیے ضروری ہے کہ ہر متعین معصیت کے ضرر کا عملی تدارک بھی بقدر امکان کرلیے۔ جب جاکر توبہ قبول ہوگی کہ یہاں واسطہ حق تعالیٰ کی صفت عدل سے ہے۔ 583 ۔ قرآن مجید کا بار بار صفت رحیمی اور قبول توبہ پر زور دینا ایک طرف ان گمراہ قوموں (مثلا بودھ مت والوں) کے مقابلہ میں ہے جو سمجھتے ہیں کہ قانون مکافات عمل (ہندی اصطلاح میں ” کرم “ ) ہر حال اور ہر صورت میں اپناعمل کرکے رہتا ہے، اور کوئی خدائی قوت اس پر غالب نہیں آسکتی۔ اور دوسری طرف ان گمراہ قوموں (مثلا مسیحیوں) کے مقابلہ میں ہے جو سمجھتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ صفت رحیمی کا اظہار پوری طرح کر ہی نہیں سکتا، اور اس کی صفت عدل کے تقاضہ کو پورا کرنے اور گناہگاروں کو معافی دلوانے کے لیے کسی کفارہ کا وجود لازمی ہے۔
Top