Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 159
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِی الْكِتٰبِ١ۙ اُولٰٓئِكَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَكْتُمُوْنَ : چھپاتے ہیں مَآ : جو اَنْزَلْنَا : ہم نے نازل کیا مِنَ : سے الْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیاں وَالْهُدٰى : اور ہدایت مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا بَيَّنّٰهُ : ہم نے واضح کردا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں واُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ يَلْعَنُهُمُ : لعنت کرتا ہے ان پر اللّٰهُ : اللہ وَيَلْعَنُهُمُ : اور لعنت کرتے ہیں ان پر اللّٰعِنُوْنَ : لعنت کرنے والے
بیشک جو لوگ چھپاتے ہیں اس چیز کو جو ہم کھلی ہوئی نشانیوں اور ہدایت میں سے نازل کرچکے ہیں بعد اس کے کہ ہم اسے لوگوں کے لیے کتاب (الہی) میں کھول چکے ہیں،577 ۔ : یہی وہ لوگ ہیں کہ اللہ ان پر لعنت کرتا ہے اور ان پر لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں،578 ۔
577 ۔ یعنی کتب سابق کے مضامین اور پشین گوئیوں کو دانستہ چھپاتے ہیں۔ مراد یہود ونصاری ہیں اور اس پر ابن عباس ؓ صحابی اور مشاہیر تابعین سب کا اتفاق ہے۔ نزلت فی اھل الکتب من الیھود والنصاری (کبیر۔ عن ابن عباس ومجاہد والحسن وقتادۃ والربیع والسدی والاصم) الاقرب انھا نزلت فی الیھود والحکم عام (روح) (آیت) ” یکتمون “ اور حق پوشی بھی اس غضب کی کہ محض سکوت پر کفایت نہیں کرتے، بلکہ الٹی حق کی مخالف شہادت دے گزرتے ہیں۔ کتمان کا اطلاق اس اخفاء پر ہوتا ہے، جو قصدا کیا جائے اور اس موقع پر جہاں اظہار ضروری ہو۔ الکتمان ترک اظہار الشیء قصدا مع مساس الحاجۃ الیہ (روح) (آیت) ” البینت والھدی “ بینات وہ نشانیاں ہیں جو بجائے خود واضح وصریح ہیں۔ (آیت) ” الھدی “ وہ ہے جو دوسروں کے لیے ذریعہ ہدایت بن سکے۔ یہاں بینات سے مراد رسالت محمدی ﷺ کے دلائل و شواہد ہیں، اور (آیت) ” ھدی “ سے مراد احکام شریعت ہیں، بیناہ میں ہ کی ضمیر (آیت) ” ماانزلنا “ کی طرف ہے۔ یعنی اس مضمون کو اس مفہوم کو (آیت) ” الکتب “ سے مراد ہے جنس کتاب، یعنی قدیم کتب آسمانی۔ مرشدتھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت میں ایسے شخص کی مذمت ہے جو اپنے مریدوں کے سوا دوسروں سے علوم شریعت کو چھپاتا ہے، کہ یہ علوم (آیت) ” ماانزل اللہ “ کے عموم میں داخل ہیں۔ البتہ علوم مکاشفہ کا حکم دوسرا ہے وہ منزل نہیں، بلکہ بعض اوقات ان کے اظہار میں خوف فتنہ بھی ہے۔ 578 ۔ (خواہ وہ لعنت کرنے والے جنس آدم سے ہوں یا جنات ہوں یا ملائکہ ہوں یا اور کوئی مخلوق ہوں) لعنۃ پر حاشیے پارۂ اول میں گزر چکے۔ اللہ کی لعنت یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو اپنے سے دور اور اپنے فضل وکرم سے مہجور کردیتا ہے۔ اے یبعدھم عن رحمتہ (روح) وذلک من اللہ تعالیٰ فی الاخرۃ عقوبتہ وفی الدنیا انقطاع من قبول رحمتہ و توفیقہ (راغب) مخلوق کی لعنت یہ ہے کہ ان بدکاروں کے لیے بددعا کی جائے، ان کے لیے حق تعالیٰ کی رحمت سے دوری اور اس کے فضل وکرم سے مہجوری طلب کی جائے۔ ومن الانسان دعاء علی غیرہ (راغب) بمعنی الدعاء علیھم بالابعاد عن رحمۃ اللہ تعالیٰ (روح) لفظ لعنت، قدیم صحیفوں کا بھی چلا ہوا محاورہ ہے۔ ملاحظہ ہوں تو ریت میں استثنا 1 1:26، 27، 28 نیز 8: 15 ۔ 2 1 وغیرہ اور انجیل میں، مرقس، 1 1:2 1 ۔ یوحنا 7:29 ۔ وغیرہ، فقہا نے آیت ماقبل سے استدلال کیا ہے کہ عالم پر تبلیغ حق اور اپنے علم کا بیان واجب ہے۔ استدل بھا علماء نا علی وجوب تبلیغ الحق وبیان العلم علی الجملۃ (ابن العربی)
Top