Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 155
وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ١ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ : اور ضرور ہم آزمائیں گے تمہیں بِشَيْءٍ : کچھ مِّنَ : سے الْخَوْفِ : خوف وَالْجُوْعِ : اور بھوک وَنَقْصٍ : اور نقصان مِّنَ : سے الْاَمْوَالِ : مال (جمع) وَالْاَنْفُسِ : اور جان (جمع) وَالثَّمَرٰتِ : اور پھل (جمع) وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دیں آپ الصّٰبِرِيْن : صبر کرنے والے
اور ہم تمہاری آزمائش کرکے رہیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور مال اور جان اور پھلوں کے کچھ نقصان سے،568 ۔ اور آپ صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنادیجیے،569 ۔
568 ۔ (بہ تقاضائے حکمت) خطاب مومنین صادقین سے چلا آرہا ہے، انہیں بتایا ہے کہ مصبتیں اور بلائیں ان پر بھی یقیناً آئیں گی، لیکن بہ طور سزا و عذاب نہیں، بلکہ ابتلاء وامتحان کے رنگ میں، اور اس ارشاد سے ان کی تسلی وتسکین کا بہترین سامان بہم پہنچا دیا۔ آزمائش خداوندی سے مقصود نتائج کو دنیا پر ظاہر کردینا ہوتا ہے، ورنہ حق تعالیٰ کو تو یہ علم ظاہر ہے کہ ہمیشہ سے حاصل ہے۔ (آیت) ” بشیء “ سے یہ بتا دیا کہ امتحان بہت سخت نہیں ہوگا، ہر ملک کے جزوقلیل ہی سے متعلق ہوگا، کل سے متعلق نہیں۔ (آیت) ” الخوف “۔ خوف کا لفظ جامع ہے۔ جان، مال، عزت ہر چیز سے متعلق اندیشہ وہر اس اس کے اندر آگیا (آیت) ” الجوع “۔ بھوک کا امتحان یہ ہے۔ کہ کسی حاجت کے باوجود ہر مال حرام سے بچے، اور نہ روزہ سے ہچکچائے، نہ فقروفاقہ سے ڈرے، (آیت) ” الاموال “۔ رشوت، سود، خیانت، بیع فاسد، ہر غیر شرعی معاملات سے دستبردار ہوجائے، اور جو مالی نقصانات تکوینی طور پر واقع ہوں، چوری ہوجائے، آگ لگ جائے، ان سب پر صبر سے کام لے، (آیت) ” الانفس “۔ موت، بیماری، جہاد کے حادثون میں صبر سے کام لے ، (آیت) ” والثمرات “ اولاد سے بھی مراد ہوسکتی ہے اور تجارت، زراعت، وغیرہ کے منافع بھی، ہر قسم کی نیک نامی، ماموری کے موقع بھی اس میں شامل ہیں محققین نے کہا ہے کہ بندہ کا ہر امتحان شرک و توحید کے درمیان فارق ہوتا ہے۔ عوام کا امتحان شرک جلی سے متعلق ہوتا ہے، اور خواص کا شرک خفی سے۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت نص ہے اس باب میں کہ مجاہدہ اضطراری بھی نافع ہوتا ہے۔ 569 ۔ صبر کرنے والوں کو، یعنی ان بندوں کو جو حالت غم میں بھی حدودشریعت سے قدم باہر نہیں نکالتے، صبر کرنے کے معنی یہ نہیں کہ بندہ بالکل بےحس ہوجائے۔ اور غم کو غم محسوس ہی نہ کرے، اس کا نام صبر نہیں، بےحسی ہے۔ صبر یہ ہے کہ انتہائی غمناک ودردانگیز واقعہ پر بندہ عقل کو نفس پر غالب رکھے، زبان کو شکوہ اور ناشکری سے نہ آلودہ ہونے دے اور نظر مسبب الاسباب پر، اس کی مصلحت و حکمت پر اس کی شفقت و رحمت پر رکھے۔ غم میں بھی قانون فطرت سے میں کچھ بدظن نہیں ! یہ سمجھتا ہوں کے میرا دوست ہے، دشمن نہیں ! (اکبررحمۃ اللہ علیہ)
Top