Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 154
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ١ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ
وَلَا : اور نہ تَقُوْلُوْا : کہو لِمَنْ : اسے جو يُّقْتَلُ : مارے جائیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ اَمْوَاتٌ : مردہ بَلْ : بلکہ اَحْيَآءٌ :زندہ ہیں وَّلٰكِنْ : اور لیکن لَّا تَشْعُرُوْنَ : تم شعور نہیں رکھتے
اور جو اللہ کی راہ میں قتل ہوجائیں، انہیں مردہ نہ کہو (نہیں) بلکہ وہ زندہ ہیں،566 ۔ البتہ تم ادراک نہیں کرسکتے،567 ۔
،566 ۔ (عالم برزخ میں ایک خاص حیات کے ساتھ، اور عام انسانوں کی طرح مردہ نہیں) (آیت) ” فی سبیل اللہ “ یعنی دین حق کی راہ میں۔ مذہب صحیح کی خاطر۔ اے فی طاعتہ واعلاء کلمتہ (روح) غزوہ بدر میں جب کچھ صحابہ شہید ہوگئے تو نافہم کافروں نے کہنا شروع کیا کہ انہوں نے خواہ مخواہ اپنی زندگی گنوادی۔ اور زندگی کے لطف سے محروم ہوگئے، انہیں جواب مل رہا ہے کہ تم جس معنی میں انہیں مردہ سمجھ رہے ہو، اس میں وہ سرے سے مردہ ہی نہیں بلکہ زندوں سے کہیں بڑھ کر ہر لذت سے لذت یاب ہورہے ہیں۔ اصطلاح میں ایسے مقتول کو شہید کہتے ہیں۔ برزخی زندگی اپنی عام صورت میں تو سب ہی کے لیے ہے۔ لیکن شہیدوں کو اس عالم میں ایک خصوصی اور امتیازی زندگی نصیب ہوگی، آثار حیات میں دوسروں سے کہیں زیادہ قوی، بقول مفسر تھانوی (رح) شہید کی اس حیات کی قوت کا ایک اثر اس کے جسد ظاہری تک بھی پہنچتا ہے کہ اس کا جسد باوجود گوشت پوست ہونے کے خاک سے متاثر نہیں ہوتا۔ اور مثل جسد زندہ کے صحیح وصالم رہتا ہے۔ جیسا کہ احادیث ومشاہدات شاہد ہیں۔ اور یہی حیات ہے جس میں حضرات انبیاء شہیدوں سے بھی زیادہ قوت و امتیاز رکھتے ہیں۔ تخصیص الشھداء لاختصاصھم بالقرب من اللہ تعالیٰ و مزید البھجۃ والکرامۃ (بیضاوی) ایک گروہ نے کہا ہے کہ حیات صرف روحانی ہوتی ہے۔ لیکن ترجیح اسی قول کو ہے کہ جسمانی وروحانی دونوں ہوتی ہے۔ ذھب کثیر من اھل السلف الی انھا حقیقیۃ بالروح والجسد وذھب البعض الی انھا روحانیۃ والمشہور ترجیح القول الاول (روح) آیت سے بہ قاعدۂ دلالۃ النص یہ بھی استنباط کیا گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں جان ومال کو صرف کرنے والے اور انہیں ہوائے نفس میں لٹانے والے یکساں نہیں ہوتے۔ حیات شہداء کے معتقد یہود کے بھی بعض فرقے ہوئے ہیں۔ (جیوش انسائیکلوپیڈیا، جلد 6 صفحہ 566) ابن العربی مالکی (رح) نے کہا ہے کہ اسی آیت سے تمسک کرکے بعض ائمہ نے شہید کے لیے غسل و نماز جنازہ دونوں غیر ضروری بتائے ہیں، کہ ان کی تطہیر تو شہادت سے ہوچکی ہے۔ لیکن امام ابوحنیفہ (رح) نے نماز جنازہ کو ضروری برقرار رکھا ہے۔ (احکام القرآن) 567 ۔ (اس لیے کہ برزخ حواس ناسوتی سے مدرک نہیں ہوتا اور انسان اسی حیات عالی ولطیف کا ادراک اپنے حواس ظاہری کے ذریعہ سے نہیں کرسکتے) انماھی امر لایدرک بالعقل بل بالوحی (بیضاوی) لانھا من احوال البرزخ التی لا یطلع علیھا ولا طریق للعلم بھا الا بالوحی (روح) لان حیا تھا الشھید لا نظم حسا (مدارک) ابن کثیر نے ایک حدیث نبوی نقل کرکے اور اس سے استنباط کرکے لکھ دیا ہے کہ ایسی حیات عام مومنین کو بھی حاصل رہی ہے، البتہ شہداء کا ذکر خاص طور پر ان کی عظمت واکرام کے لیے قرآن مجید میں کردیا گیا ہے۔ ففیہ دلالۃ لعموم ال مومنین ایضا وان کان الشھداء قد خصصوا بالذکر فی القرآن تشریقا لھم وتکریما وتعظیما۔
Top