Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 153
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو کہ اٰمَنُوا : ایمان لائے اسْتَعِيْنُوْا : تم مدد مانگو بِالصَّبْرِ : صبر سے وَالصَّلٰوةِ : اور نماز اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ الصّٰبِرِيْن : صبر کرنے والے
اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد چاہو،564 ۔ بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ رہے،565
564 ۔ یعنی ہجوم مشکلات کے وقت بھی مشکل کشائے حقیقی سے تعلق برابر جوڑے رہو۔ اس پر بھروسہ رکھو، اس کے آگے جھکتے رہو، گرتے رہو۔ روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ کسی بڑی اور پر قوت ہستی سے تعلق قائم ہوجانے سے دل کو کتنی تقویت حاصل ہوتی ہے۔ خطرہ کے وقت پولیس کے پہنچ جانے سے، کسی بڑے حاکم کے آجانے سے دل کو کیسی ڈھارس بندھ جاتی ہے، شدید بیماری کے وقت کسی نامور طبیب کے آجانے سے ٹوٹی ہوئی آس کیسی جڑ جاتی ہے۔ پھر جب دل کا ربطہ ہمہ بین وہمہ داں، ناصر حقیقی ومحافظ حقیقی سے قائم ہوجائے، تو انسان بےبنیان کی تسکین خاطر وتقویت قلب کا کیا پوچھنا ! دنیا میں رہ کر، زندگی کی کشمکش میں پڑکر، مشکلات ومصائب کا پیش آتے رہنا ناگزیر ہے۔ افراد کو بھی، اور امت وجماعت کو بھی۔ اور وہ دستورالعمل ناقص ہے جو مشکلات کے دفاع اور مصائب سے مقابلہ کا طریقہ نہ بتائے، قرآن مجید نے بجائے غیرضروری اور نامتناہی تفصیلات میں جانے کے یہاں اشارہ اصل اصول کی طرف کردیا۔ (آیت) ” بالصبر “ صبر کے لفظی معنی تنگی اور ناخوشگواری کی حالت میں اپنے کو روکے رہنے کے ہیں۔ الصبر الامساک فی ضیق (راغب) اور اصطلاح شریعت میں اس کے معنی یہ ہیں کہ نفس کو عقل پر غالب نہ آنے دیا جائے، اور قدم دائرہ شریعت سے باہر نہ نکالا جائے۔ الصبر حبس النفس علی ما یقتضیہ العقل والشرع (راغب) صبر کے یہ معنی نہیں کہ جو امور طبعی اور بشری ہیں، ان کے آثار کو بھی اپنے اوپر طاری نہ ہونے دیا جائے۔ بھوک کے وقت مضمحل اور نڈھال ہوجانا، درد کی تکلیف سے کراہنا، رنج کے وقت آہ سرد بھرنا، عزیزوں قریبوں کی موت پر آنسوؤں سے رونا، ان میں سے کوئی شے بھی صبر کے منافی اور بےصبری میں داخل نہیں۔ قرآنی فرمان کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ ہجوم مشکلات کے وقت گھبرانہ جاؤ، ثابت قدم رہو، دل قابو میں رکھو، خود دل کے بس میں نہ آجاؤ۔ الصبر والصلوۃ صبر ایک سلبی کیفیت اور صلوۃ ایک ایجابی عمل ہے، ان دو کلیدی لفظوں سے اشارہ ادھر ہوگیا کہ انفرادی اصلاح اور اجتماعی فلاں دونوں کا راز صرف ان دوچیزوں میں ہے۔ ایک معاصی سے حفظ و احتیاط، دوسرے اوامر کا اتباع۔ 565 ۔ اللہ کی معیت عام تو کافر و مومن، فاسق و صالح، اپنے ہر بندہ کے ساتھ ہے۔ (آیت) ” وھو معکم این ما کنتم “۔ یہاں یہ معیت عام مراد نہیں۔ بلکہ معیت خصوصی مراد ہے، جس کے آثار حفاظت، اعانت و توجہ خاص ہیں، یہ اسی معیت الہی کا احساس و استحضار تھا، جس نے رسول کریم ﷺ کے صحابہ ؓ کو بےپناہ قوت، جرأت، بےخوفی کا مالک بنادیا تھا۔ اور حق یہ ہے کہ اس کے مراقبہ سے بڑھ کر نہ روح کے لیے کوئی لذیذ غذا ہے اور نہ جراحت قلب کے لیے کوئی مرہم تسکین، یہی ایک تصور ہے اہل ایمان کے لیے جو ہر ناگوار کو خوشگوار ہر تلخ کو شیرین ہر زہر کو قند بنادینے کو کافی ہے۔ دور حاضر کے مغربی مفکرین اور نفسئین نے بھی اس تعلق باللہ پر روشنی ڈالی ہے، اور تسلیم کیا ہے کہ قلب کی اداسی، غمگینی، افسردگی کے وقت تعلق باللہ سے بڑھ کر مونس، رفیق ودمساز کوئی نہیں، ملاحظہ ہوں Psychology of Religigions صفحہ 66، 67 ۔ نیز James کی Varietes of Religious Expiriences کے مختلف مقامات۔ صبر۔ اپنے وسیع مفہوم میں ایک جامع لفظ ہے۔ صلوۃ اسی کی ایک ممتاز صورت ہے۔ معیت الہی کی یہ نعمت جب صابرین کو ملے گی، تو نمازیوں کو بدرجہ اولی ملے گی، اور اسی لیے اس کی صراحت کی ضرورت نہ رہی۔ ولم یقل مع المصلین لانہ اذا کان مع الصابرین کان مع المصلین من باب اولی لاشتمال الصلوۃ علی الصبر (روح)
Top