Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 81
وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ١ؕ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا
وَقُلْ : اور کہ دیں آپ جَآءَ : آیا الْحَقُّ : حق وَزَهَقَ : اور نابود ہوگیا الْبَاطِلُ : باطل اِنَّ : بیشک الْبَاطِلَ : باطل كَانَ : ہے ہی زَهُوْقًا : مٹنے والا
اور آپ کہہ دیجیے کہ حق (بس اب) آہی گیا اور باطل مٹ گیا بیشک باطل تھا ہی نمٹنے والا،120۔
120۔ آیت کے آخری ٹکڑے نے یہ حقیقت صاف کردی کہ پائداری اور قیام باطل کے نصیب میں نہیں (آیت) ” الحق۔ الباطل “۔ حق سے مراد ہے دین توحید اور باطل اس کی ضد ہے اور ہر قسم کے کفر اور غیر پرستی پر شامل ہے۔ حدیث وسیر کی روایتوں میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ فتح مکہ کے بعد جب خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو کعبہ کے اندر کے بتوں اور مورتیوں کو توڑتے جاتے تھے اور زبان سے یہ آیت تلاوت فرماتے جاتے۔ محققین صوفیہ نے الفاظ آیت کے عموم سے فائدہ اٹھاکرحق کے تحت میں نور باطن اور حب الہی کو بھی داخل کیا اور باطل کے تحت میں ظلمت اور حب خلق کو۔
Top