Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 76
وَ اِنْ كَادُوْا لَیَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِیُخْرِجُوْكَ مِنْهَا وَ اِذًا لَّا یَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِیْلًا
وَاِنْ : اور تحقیق كَادُوْا : قریب تھا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ : کہ تمہیں پھسلا ہی دیں مِنَ : سے الْاَرْضِ : زمین (مکہ) لِيُخْرِجُوْكَ : تاکہ وہ تمہیں نکال دیں مِنْهَا : یہاں سے وَاِذًا : اور اس صورت میں لَّا يَلْبَثُوْنَ : وہ نہ ٹھہرپاتے خِلٰفَكَ : تمہارے پیچھے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑا
اور قریب تھا کہ یہ (کافر) اس سرزمین سے آپ کے قدم اکھیڑ دیں تاکہ آپ کو اس سے نکال دیں اور اس حالت میں یہ بھی آپ کے بعد بہت کم ٹھہرنے پاتے،109۔
109۔ یعنی انہیں بھی مہلت نہ ملنے پاتی، اور یہ بھی زمانہ قریب میں عذاب الہی کی گرفت میں آجاتے (آیت) ” وان۔۔ من الارض “۔ ملک عرب میں آپ کے قدم اکھیڑ دینا خواہ جبر سے ہوتا یا مکر سے۔ بعض نے یہاں کافروں سے مراد یہود سے لی ہے۔ انہوں نے آپ سے کہنا شروع کیا تھا کہ انبیاء کی سرزمین تو شام ہے، یہ آپ حجاز میں کیسے پڑے ہوئے ہیں۔ وہیں چلے جائیے۔ اور بعض نے مراد قریش سے لی ہے کہ وہی مکہ معظمہ سے آپ کے اخراج کے درپے تھے۔ بہرحال وہ مخالفین معاندین میں سے خواہ مشرکین خواہ یہود، دیکھا تو یہ گیا، اور یہ کوئی بہت بڑی مدت کے بعد نہیں، چند ہی سال کے اندر، کہ سارے جزیرۃ العرب میں اس سرے سے اس سرے تک نہ کوئی مشرک رہ گیا نہ یہودی۔ سب کے سب امی محمد کی رسالت کے کلمہ پڑھنے والی والے رہ گئے۔ (آیت) ” اذا “۔ یعنی اگر ایسا کافروں کے حسب خواہش واقع ہوگیا ہوتا، جو نہیں ہوا۔ (آیت) ” خلفک “۔ خلاف یہاں بعد کے معنی میں ہے۔ اے بعدک (روح) زعم الاخفش ان خلفک فی معنی خلفک (کبیر) 110۔ یعنی جب ان کی قوم نے ان پیغمبروں برحق کو اپنے اور ان کے وطن سے نکال دیا، تو خود ان منکروں کو بھی چین سے رہنا نصیب نہ ہوا۔ (آیت) ” سنۃ “۔ جملہ کی ترکیب مقدر یوں سمجھی گئی ہے۔ سن اللہ ذلک سنۃ اور سنۃ کا نصب مصدر تاکیدی کا نصب مانا گیا ہے نصبت المصدر المؤکد اے سن اللہ ذلک سنۃ (کشاف)
Top