Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 75
اِذًا لَّاَذَقْنٰكَ ضِعْفَ الْحَیٰوةِ وَ ضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَیْنَا نَصِیْرًا
اِذًا : اس صورت میں لَّاَذَقْنٰكَ : ہم تمہیں چکھاتے ضِعْفَ : دوگنی الْحَيٰوةِ : زندگی وَضِعْفَ : اور دوگنی الْمَمَاتِ : موت ثُمَّ : پھر لَا تَجِدُ : تم نہ پاتے لَكَ : اپنے لیے عَلَيْنَا : ہم پر (ہمارے مقابلہ میں) نَصِيْرًا : کوئی مددگار
اس حالت میں ہم آپ کو دوگنا عذاب چکھاتے زندگی میں بھی اور (بعد) موت بھی پھر آپ ہمارے مقابلہ میں کسی کو بھی مددگار نہ پاتے،108۔
108۔ (مگر آپ چونکہ معصوم ہیں اور ثابت قدم رہے اس لیے قرب میلان بھی نہیں ہوا۔ اور ان وعیدوں سے بھی بالکل بچ گئے) فقہاء نے یہاں سے یہ مسئلہ استنباط کیا ہے کہ علماء و خواص پر جاہل عوام سے سخت تر گرفت ہوگی، مباح ان کی شان سے بعید اور مکروہ ان کے حق میں سزا واروعید ہوجاتا ہے۔ (آیت) ” اذا یعنی اگر اس میلان ورجحان کا ترتب وتحقق ہوجاتا جو کہ نہیں ہوا۔ وہ صورت حال اگر ہوجاتی جس کی ابھی نفی کی جاچکی ہے۔ اردو مصرعہ ” جن کے رتبے ہیں سوا ان کو سوا مشکل ہے “ اور فارسی مقولہ ” نزدیکاں رابیش بود حیرانی “ ان ہی مقامات کے ترجمان ہیں۔ رسول کا مرتبہ جتنا اونچا ہوتا ہے، اسی نسبت سے گرفت بھی سخت تر رکھی گئی ہے۔ والسبب فی تضعیف ھذا العذاب ان اقسام نعم اللہ تعالیٰ فی حق الانبیاء (علیہ السلام) اکثر فکانت ذنوبھم اعظم فکانت العقوبۃ المستحقۃ علیھا اکثر (کبیر)
Top