Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 107
قُلْ اٰمِنُوْا بِهٖۤ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖۤ اِذَا یُتْلٰى عَلَیْهِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًاۙ
قُلْ : آپ کہ دیں اٰمِنُوْا : تم ایمان لاؤ بِهٖٓ : اس پر اَوْ : یا لَا تُؤْمِنُوْا : تم ایمان نہ لاؤ اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہیں اُوْتُوا الْعِلْمَ : علم دیا گیا مِنْ قَبْلِهٖٓ : اس سے قبل اِذَا : جب يُتْلٰى : وہ پڑھاجاتا ہے عَلَيْهِمْ : ان کے سامنے يَخِرُّوْنَ : وہ گرپڑتے ہیں لِلْاَذْقَانِ : ٹھوڑیوں کے بل سُجَّدًا : سجدہ کرتے ہوئے
آپ کہہ دیجیے کہ تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ (بہرصورت) جن لوگوں کو اس سے قبل علم دیا جا چکا ہے جب یہ ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں،153۔
153۔ (بہ طور ادائے شکر واعتراف حقیقت کے) مطلب یہ ہوا کہ جو اہل علم قبل نزول سے موجود تھے وہ تو اس کتاب اور آخری نبی کے منتظر ہی تھے وہ اس کلام کو سن کر اپنی اگلی کتابوں کی پیشگوئیوں اور پیش خبر یوں کی تصدیق پاتے ہیں اور قرآن کو پا کر سجدۂ شکر ادا کرتے ہیں۔ (آیت) ” یخرون للاذقان “۔ سجدہ کی اصل ہئیت کو محاورہ عرب کے مطابق ” ٹھوڑیوں کے بل سجدہ “ سے ادا کیا ہے۔ عن ابن عباس ؓ قال للوجوہ (جصاص) عن قتادۃ قال للوجوہ (جصاص) الخرور للذقن اے السقوط علی الوجہ (کشاف) العرب تقول اذا خر الرجل فوقع علی وجھہ خر للذقن (کبیر) (آیت) ” الذین۔۔۔ قبلہ “۔ یعنی حق یسر علماء اھل کتاب۔ قال مجاھدھم ناس من اھل کتاب (کبیر) ھم العلماء الذین قروا الکتب السابقۃ (بیضاوی) (آیت) ” قبلہ “۔ ضمیر قرآن کی جانب ہے۔ اے من قبل نزول القران (کبیر) (آیت) ” امنوا بہ اولاتؤمنوا “۔ مشرکین کی جانب اس میں اشارہ حقارت ہے۔ یعنی تم ایمان لاؤیا نہ لاؤ اس سے ہوتا کیا ہے۔
Top