Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 105
وَ بِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰهُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَ١ؕ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۘ
وَبِالْحَقِّ : اور حق کے ساتھ اَنْزَلْنٰهُ : ہم نے اسے نازل کیا وَبِالْحَقِّ : اور سچائی کے ساتھ نَزَلَ : نازل ہوا وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنٰكَ : ہم نے آپ کو بھیجا اِلَّا : مگر مُبَشِّرًا : خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈر سنانے والا
اور ہم نے اس (کلام) کو حق کے ساتھ نازل کیا اور وہ حق کے ساتھ نازل ہوگیا اور ہم نے آپ کو صرف بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے،151۔
151۔ (اس لئے آپ پر کسی کے ایمان لانے نہ لانے کی کوئی ذمہ داری نہیں اور نہ آپ کو کسی کے ایمان نہ لانے پر زیادہ غم وتردد کی کوئی وجہ ہے) (آیت) ” وبالحق “۔ یعنی بلاتحریف و ترمیم وتصرف بعینہ اپنی اصلی حالت میں۔ (آیت) ” وبالحق انزلنہ وبالحق نزل “۔ یعنی یہ کلام جس طرح اپنے مرسل کے پاس سے چلا تھا اسی طرح بلاتغیر و تصرف مرسل الیہ تک پہنچ بھی گیا۔ فھذا الکتاب کتاب تکفل اللہ بحفظہ عن تحریف الزائغین وتبدیل الجاھلین فکان ھذا الکتاب حقا من کل الوجوہ (کبیر) (آیت) ” انزلنہ “۔ ضمیر قرآن کی طرف ہے۔ ضمیر الغائب للقران (روح) محققین نے کہا ہے کہ اس آیت کا ربط آیت نمبر (88) لئن اجتمعت الانس والجن الخ سے ہے۔ فھو مرتبط بقولہ تعالیٰ لئن اجتمعت الانس والجن۔ اہل عرب کے ادب وانشاء میں یہ طریقہ عام تھا کہ ایک ذکر میں دوسرا اور پھر تیسرا اور پھر چوتھا ذکر نکالتے چلے آتے، اور پھر اسی پہلے ذکر کی طرف رجوع کرتے۔ وھکذا طریقۃ العرب فی کلامھا تاخذ فی شیء وتستطرد منہ الی اخرثم الی اخرثم الی اخر تعود الی ماذکرتہ اولا (روح)
Top