Tafseer-e-Majidi - Al-Hijr : 35
وَّ اِنَّ عَلَیْكَ اللَّعْنَةَ اِلٰى یَوْمِ الدِّیْنِ
وَّاِنَّ : اور بیشک عَلَيْكَ : تجھ پر اللَّعْنَةَ : لعنت اِلٰى : تک يَوْمِ الدِّيْنِ : روز انصاف
اور بیشک تیرے اوپر روز قیامت تک لعنت رہے گی،30۔
30۔ (اور تو نہ راہ راست پر آئے گا، نہ تجھے توفیق توبہ ہوگی) لعنت کے معنی اوپر گزر چکے ہیں کہ رحمت سے مہجوری کے ہیں۔ (آیت) ” الی یوم الدین “۔ قیامت تک “ سے محاورہ میں مراد دوام ہوتی ہے، یہ مراد نہیں کہ قیام قیامت کے بعد ابلیس کی ملعونیت جاتی رہے گی۔ المراد منہ التابید وذکر القیامۃ ابعد غایۃ یذکرھا الناس فی کلامھم (کبیر) اور محاورۂ زبان سے قطع نظر تو بھی ظاہر ہے کہ جو محل رحمت قیامت تک نہ ہو اس کے لیے بعد قیامت محل رحمت ہونے کی گنجائش کیا ہے ؟ دارالجزاء میں تو دارالعمل کا صرف تکملہ ہی ہوتا ہے نہ کہ اس سے قطع نظر کرکے کسی جدید شے کی پیدائش۔
Top