Tafseer-e-Majidi - Al-Hijr : 14
وَ لَوْ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَآءِ فَظَلُّوْا فِیْهِ یَعْرُجُوْنَۙ
وَلَوْ : اور اگر فَتَحْنَا : ہم کھول دیں عَلَيْهِمْ : ان پر بَابًا : کوئی دروازہ مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان فَظَلُّوْا : وہ رہیں فِيْهِ : اس میں يَعْرُجُوْنَ : چڑھتے
اگر ہم ان کے لئے کوئی دروازہ آسمان میں کھول دیں پھر یہ دن کے وقت اس میں چڑھ جائیں،11۔
11۔ (آسمان پر) (آیت) ” ظلوا “۔ کے معنی ہیں کہ کسی فعل کو روز روشن میں کیا۔ یعنی یہ خارق عادت عمل میں آئے اور ہوش وبیداری کے عالم میں پوری روشنی میں عمل میں آئے نیند کی بیہوشی اور تاریکی وغیرہ سے شبہات کی کوئی گنجائش نہ رہے۔ لاتقول العرب ظل یظل الا لکل عمل عمل بالنھار (کبیر) یعبر بہ عمایفعل بالنھار (راغب) مطلب یہ ہوا کہ یہ کافر معاند اگر اپنے فرمایشی معجزہ یعنی کافروں کے نزول زمینی سے کہیں بڑھے ہوئے خارق عادت یعنی اسرار و عجائب آسمانی کو بہ چسم خود جاکر دیکھ لیں۔ (آیت) ” لو فتحنا “۔ الخ ‘ یہ سب باتیں بہ طور فرض کے کہی گئی ہیں، اور مخاطبین اول کے عام انسانی خیالات اور علمی تحقیقات کے مطابق کہی گئی ہیں۔ جس کے دروازے کھل سکتے ہیں، درست نہیں۔
Top