Mafhoom-ul-Quran - Al-An'aam : 2
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ قَضٰۤى اَجَلًا١ؕ وَ اَجَلٌ مُّسَمًّى عِنْدَهٗ ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَ
هُوَ : وہ الَّذِيْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا مِّنْ : سے طِيْنٍ : مٹی ثُمَّ : پھر قَضٰٓى : مقرر کیا اَجَلًا : ایک وقت وَاَجَلٌ : اور ایک وقت مُّسَمًّى : مقرر عِنْدَهٗ : اس کے ہاں ثُمَّ : پھر اَنْتُمْ : تم تَمْتَرُوْنَ : شک کرتے ہو
وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر تمہارے لیے زندگی کی ایک مدت مقرر کردی، اور ایک دوسری مدت اور بھی ہے جو اس کے پاس مقرر ہوچکی ہے، پھر بھی تم شک میں پڑے ہوئے ہو۔
انسان کی پیدائش تشریح : اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، مختارِ کل ہونے کی دلیل اور قیامت کا ذکر کیا گیا ہے۔ جیسا کہ سیدنا آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ ہم نے مٹی کا ایک پتلا بنایا اور اس میں روح پھونک دی۔ دراصل مٹی کے تمام اجزا اور خاصیتیں انسانی جسم میں موجود ہیں۔ اس لیے مٹی اور زمین کا تعلق انسان کی پیدائش، نشوونما اور بقا کے ساتھ بہت گہرا ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا تعلق زمین اور مٹی کے ساتھ اتنا ہی گہرا اور ضروری ہے جتنا کہ پھل، پھول اور درخت کا تعلق مٹی کے ساتھ ہے۔ بیشک ہم ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے ہیں مگر ہمارے جسم کے تمام اجزا وہی ہوتے ہیں جو اجزا مٹی میں ہوتے ہیں پھر مٹی سے پیدا ہونے والا اناج، پھل، پھول ہمارے جسم کو بڑھانے، باقی رہنے اور زندگی کو قائم رکھنے کے لیے بےحد ضروری ہیں ہم ان کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ ہم مٹی کو بڑا معمولی اور حقیر سمجھتے ہیں مگر ہمیں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری زندگی کو باقی رکھنے میں زمین، یعنی مٹی کا کتنا ہاتھ ہے پھر جب ہم مرجاتے ہیں تو بھی مٹی میں ہی ہمیں دفنا دیا جاتا ہے ورنہ اتنے لوگ روزانہ مرتے ہیں اگر ان کو یونہی پھینک دیا جاتا تو ساری دنیا غلاظت، بدبو اور طرح طرح کے گندے جراثیم سے بھر جاتی اور زندہ انسان زندگی سے عاجز آجاتے۔ پھر ایک اور بات جو اس آیت میں بتائی گئی ہے کہ جس طرح تم زندگی گزار کر مرجاتے ہو اسی طرح یہ کائنات بھی ایک مقررہ مدت گزار کر ختم ہوجائے گی اور اس دن کو قیامت کہتے ہیں۔ تب دوبارہ تم سب لوگ زمین میں سے نکل کھڑے ہوگے اور اللہ کے حضور حاضر ہو کر اپنا اپنا حساب کتاب کروانے کے بعد سزا یا جزا پائو گے۔ یہ سب کچھ تمہارے سامنے ہو رہا ہے۔ انسان پیدا ہو رہے ہیں۔ مر رہے ہیں جیسے اب انسان کو پیدا کیا جا رہا ہے اسی طرح اللہ ان کو دوبارہ بھی پیدا کرسکتا ہے۔ آسان سی بات ہے سمجھنے کے لیے، لیکن کافر، منکر اور شیطان کے دوست پھر بھی اللہ کے وجود سے انکار کرتے ہیں۔ اور پھر یہ بات بھی بتا دی گئی ہے کہ انسان کی پیدائش، اس کے مرنے کا وقت، دنیا کی پیدائش، اس کے فنا ہونے کا وقت سب کچھ یونہی اتفاقیہ نہیں ہو رہا بلکہ سب کچھ اللہ کے پاس لوح محفوظ میں لکھا ہوا موجود ہے، اس لیے اللہ کے حکم اور اجازت کے بغیر کوئی کام ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اگلی آیات میں اور بھی تفصیل سے بیان کیا جا رہا ہے ملاحظہ ہو۔
Top