Mafhoom-ul-Quran - Al-An'aam : 12
قُلْ لِّمَنْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ قُلْ لِّلّٰهِ١ؕ كَتَبَ عَلٰى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ١ؕ لَیَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَا رَیْبَ فِیْهِ١ؕ اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
قُلْ : آپ پوچھیں لِّمَنْ : کس کے لیے مَّا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین قُلْ : کہ دیں لِّلّٰهِ : اللہ کے لیے كَتَبَ : لکھی ہے عَلٰي نَفْسِهِ : اپنے (نفس) آپ پر الرَّحْمَةَ : رحمت لَيَجْمَعَنَّكُمْ : تمہیں ضرور جمع کرے گا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : قیامت کا دن لَا رَيْبَ : نہیں شک فِيْهِ : اس میں اَلَّذِيْنَ : جو لوگ خَسِرُوْٓا : خسارہ میں ڈالا اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ فَهُمْ : تو وہی لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لائیں گے
آپ ان سے پوچھئے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ کس کا ہے ؟ آپ کہہ دیجئے کہ سب کچھ اللہ ہی کا ہے، اس نے اپنے آپ پر رحمت کو لازم کرلیا ہے (اسی لیے وہ تمہیں جلدی سے سزا نہیں دیتا) ۔ وہ یقینا تمہیں قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے واقع ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ مگر جو لوگ خود ہی خسارہ میں رہنا چاہیں، وہ ایمان نہیں لائیں گے
تبلیغ کے فائدے اور طریقے تشریح : ان تمام آیات میں آنحضرت ﷺ کو نذیر اور بشیر یعنی ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا بتایا گیا ہے۔ ان کو گمراہی دور کرنے اور نیکی پھیلانے کے لیے اللہ رب العزت نے منتخب کر کے آخری نبی کی صورت میں لوگوں کی طرف بھیجا اور پھر مختلف طریقوں سے خود نبی ﷺ کی رہنمائی فرمائی اور یوں فرمایا۔ سب سے پہلے اللہ کا مالک کل ہونا ثابت کیا پھر قیامت کے دن کی سچائی اور سختی سے آگاہ کیا۔ پھر اللہ کے رحیم و کریم ہونے کی خبر دی اللہ واقعی بڑا ہی رحم کرنے والا ہے۔ صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کیا تو ایک نوشتہ اپنے وعدے کا تحریر فرمایا جو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے، جس کا مضمون یہ ہے میری رحمت میرے غضب پر غالب رہے گی۔ (قرطبی از معارف القرآن) پھر اللہ نے آپ کی زبانی اپنی وسیع و عریض لامحدود بادشاہت کا ذکر کیا۔ پھر آپ کو یہ کہنے کا ارشاد فرمایا کہ اگر میں اللہ کی وحدانیت اور اس کے مختارِ کل ہونے اور آخرت کے دن سے انکار کروں تو میں بھی عذاب کا مستحق ہوجاؤں گا۔ پھر ان لوگوں کا ذکر کیا جو اللہ کی رحمت میں آگئے اور آخرت کے دن کی سختی سے بچ گئے اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ پھر اعتقاد کا اصول بتایا کہ نفع و نقصان سب اللہ کے ہاتھ میں ہے، پھر اس بنیادی اور زبردست عقیدے کا ذکر کیا جس نے امت مسلمہ کو پوری دنیا کی امتوں سے بلند وبالا کردیا۔ وہ ہے صرف اور صرف اللہ کو ہی اپنا رزق دینے والا سمجھنا اور کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا۔ توکل اور ایمان کی یہی نشانی ہے۔ اس سے بیشمار برائیوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ یعنی رشوت، سفارش، جھوٹ، چوری، ڈاکہ، فساد، اور قتل و غارت گری سب ختم ہوسکتے ہیں۔ بس اللہ پر بھروسہ کرو، نہایت ایمانداری، کوشش، محنت اور سکون سے اپنے تمام کام کرو جو اللہ نے تمہارے سپرد کئے ہیں۔ پھر اللہ کی قدرت، طاقت اور بڑائی کو بیان کیا، پھر اللہ رب العزت نے اپنی گواہی کا ذکر کیا کہ اس کی گواہی سے بڑھ کر کسی کی گواہی نہیں ہوسکتی۔ وہ اکیلا ہے، سب سے بڑا ہے، قادر مطلق ہے حکیم وخبیر ہے۔ پھر آپ کو یہ کہنے کا حکم دیا گیا کہ اسی رحیم و کریم نے مجھے پیغمبر بنا کر بھیجا اور قرآن مجید مجھ پر وحی کے ذریعہ نازل کیا۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام اور تمام مسلمانوں کو تاکید فرمائی کہ میرے احکام وتعلیمات لوگوں تک پہنچائو اگرچہ ایک ہی آیت ہو۔ پھر ان لوگوں کو جواب دیا گیا جنہوں نے یہ کہا کہ ہم نے یہودونصارٰی سے پوچھ لیا ہے وہ آپ ﷺ کی سچائی کی گواہی نہیں دیتے۔ بتایا گیا کہ یہود و نصارٰی کو ان کی کتابوں میں آخری نبی ﷺ کے بارے میں اتنی زیادہ تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ جیسے ایک باپ اپنے بیٹے کو پہچاننے میں غلطی نہیں کرسکتا اسی طرح وہ محمد ﷺ اور قرآن کو بغیر کسی غلطی کے پہچان سکتے ہیں مگر ان کی بدقسمتی کہ یہ خود اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں کیونکہ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی سیدنا محمد ﷺ پر ایمان نہیں لا رہے۔ انہی لوگوں کے بارے میں قرآن مجید میں آیا ہے :” ان سے زیادہ ظالم کون ہوسکتا ہے جو اللہ پر بہتان باندھے اسکی آیتوں کو جھٹلا دے بیشک ظالموں کو بھلائی نصیب نہیں ہوتی۔ “ یہ لوگ دوہرا گناہ کر رہے تھے ایک تو خود جانتے بوجھتے ایمان نہ لاتے اور دوسرے لوگوں کو بھی سچائی سے دور رکھتے اور ان کو الٹا گمراہی کے راستے پر ڈالتے اسی لیے ان کو ظالم کہا گیا ہے۔ ان تمام آیات میں ایمان اور کفر کا نقشہ بڑے آسان اور واضح طریقہ سے بیان کردیا گیا ہے اور دنیا و آخرت میں نجات حاصل کرنے کے راہنما اصول بھی بتا دیے گئے مگر آدمی کی سب سے بڑی محرومی یہ ہے کہ وہ اپنے ضمیر کا ساتھ نہ دے سکے اور صرف ضد اور تعصب کی وجہ سے وہ اس راستہ پر چلنے لگے جس کے بارے میں اس کا ضمیر اس کو بار بار بتا رہا ہو کہ یہ غلط راستہ ہے۔ یہ ایک محرومی اور ناکامی ہے انسان کے لیے مگر شیطان اس کو یہی یقین دلاتا رہتا ہے کہ یہی تمہاری کامیابی ہے، حالانکہ وہ خود کو ہلاکت، ناکامی اور ظلم کی طرف لے جا رہا ہوتا ہے۔ یہی حال کفار مکہ کا تھا اور یہی حال ہر اس شخص کا ہے جو مسلمان ہو کر بھی مسلمان نہیں ہوتا اور سب کچھ جانتے بوجھتے بھی انجان بنا رہتا ہے۔ قرآن مجید کا ہر لفظ، ہر جملہ اور ہر آیت انسان کے لیے رشد و ہدایت کا خزانہ لیے ہوئے ہے۔ اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کو سمجھ سکیں اور اس پر پورے خلوص سے عمل کر کے دنیا و آخرت میں سرخ رو ہوسکیں۔ الٰہی تو ہمارے دلوں میں نیکو کاری ڈال دے اور ہمیں ہمارے نفس کے شر سے پناہ دے۔ آمین۔
Top