Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 59
وَ عِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُهَاۤ اِلَّا هُوَ١ؕ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ١ؕ وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا یَعْلَمُهَا وَ لَا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ
وَعِنْدَهٗ : اور اس کے پاس مَفَاتِحُ : کنجیاں الْغَيْبِ : غیب لَا : نہیں يَعْلَمُهَآ : ان کو جانتا اِلَّا : سوا هُوَ : وہ وَيَعْلَمُ : اور جانتا ہے مَا : جو فِي الْبَرِّ : خشکی میں وَالْبَحْرِ : اور تری وَمَا : اور نہیں تَسْقُطُ : گرتا مِنْ : کوئی وَّرَقَةٍ : کوئی پتا اِلَّا : مگر يَعْلَمُهَا : وہ اس کو جانتا ہے وَلَا حَبَّةٍ : اور نہ کوئی دانہ فِيْ : میں ظُلُمٰتِ : اندھیرے الْاَرْضِ : زمین وَلَا رَطْبٍ : اور نہ کوئی تر وَّلَا : اور نہ يَابِسٍ : خشک اِلَّا : مگر فِيْ : میں كِتٰبٍ : کتاب مُّبِيْنٍ : روشن
اور اسی کے پاس ہیں کنجیاں غیب کی، نہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور وہ جانتا ہے وہ سب کچھ جو کہ خشکی اور تری میں ہے اور نہیں کرتا کوئی پتہ مگر وہ اس کو جانتا ہے اور نہ ہی پڑتا ہے کوئی دانہ زمین (کی تاریکیوں) میں، اور نہ کوئی تر اور خشک چیز ہے مگر یہ سب کچھ (مسطور و مندرج ہے ایک روشن کتاب میں،3
101 تمام خزانے اور ان کی کنجیاں اللہ ہی کے پاس ہیں : سو ارشاد فرمایا گیا اور حصر و قصر کے اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا کہ اسی کے پاس ہیں سب کنجیاں اور سب خزانے جن کو اس وحدہ لا شریک کے سوا کوئی جانتا ہی نہیں۔ سو اس سے یہ امر قطعی طور پر صاف اور واضح ہوجاتا ہے کہ زمین و آسمان کے سب خزانے اور ان کی سب کنجیاں اللہ ہی کے پاس ہیں۔ یہ معنیٰ اس صورت میں ہوں گے جب کہ " مفاتیح " جمع ہو " مِفتح " کی۔ میم کے کسرے کے ساتھ۔ جو " مفتاح " کے معنیٰ میں آتا ہے یعنی کنجی۔ اور اگر اسے جمع قرار دیا جائے " مَفتح " کی۔ یعنی میم کے فتحہ کے ساتھ، تو اس وقت اس کے معنیٰ " خزانہ " کے ہوں گے۔ یعنی اسی کے پاس ہیں غیب کے خزانے۔ مآل دونوں کا بہرحال ایک ہی ہے کہ غیب کا علم اسی کے ساتھ خاص ہے۔ اس کے سوا عالم غیب اور کوئی نہیں۔ سب خزانوں کا مالک بھی وہی ہے اور سب کنجیاں بھی اس کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہیں۔ اور جمہور علماء و مفسرین کے نزدیک غیب کی کنجیوں سے مراد وہ پانچ امور ہیں جن کا ذکر سورة لُقمٰن کی آخری آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے یعنی ۔ { اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہ عِلْمُ السَّاعَۃ } ۔ الخ۔ پس ان پانچ چیزوں کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کے پاس نہیں ہے۔ اور جمہور اہل علم، مفسرین و محدثین کرام نے تصریح فرمائی ہے کہ غیب کی ان پانچ چیزوں کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ نمونے کے طور پر چند ایک حوالے ملاحظہ ہوں : ابن جریر : ج 21 ص 88، ابن کثیر : ج 3 ص 455، روح المعانی : ج 21 ص 99، 100، السراج المنیر : ج 3 ص 200، در منثور : ج 5 ص 170، صفوۃ التفاسیر : ج 1 ص 395 وغیرہ وغیرہ۔ اور صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر۔ ؓ عنھما ۔ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا " مَفَاتِیْحُ الْغَیْبِ خَمْسٌ لا یَعْلَمُہَا اِلَّا اللّٰہُ " کہ " غیب کی کنجیاں یہ پانچ چیزیں ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا "۔ پھر آپ ﷺ نے انہی پانچ چیزوں کا ذکر فرمایا۔ یعنی یہ کہ رحم مادر میں کیا ہے ؟ کل کیا ہونے والا ہے ؟ کس نے کل کیا کرنا ہے ؟ کس کی موت کہاں آئے گی ؟ اور بارش کب ہوگی ؟ اور ایک روایت میں ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہوگی۔ یہ حدیث الفاظ کی کچھ کمی بیشی کے ساتھ بخاری شریف میں مختلف مقامات پر وارد ہوئی ہے۔ مثلاً کتاب الاستسقاء، باب لا یدری متی یاتی المطر الا اللہ۔ کتاب التفسیر، تفسیر سورة الانعام، باب ۔ { وَعِنْدَہ مََفَاتِیحُ الْغَیْبِ لایَعْلَمُہَا اِلّا اللّٰہ } ۔ تفسیر سورة ُ الرّعد باب ۔ { اِنَّ اللّٰہَ یَعْلُمُ مَا تَحْمِلُ کُلُّ اُنْثٰی } وغیرہ وغیرہ۔ اس لئے حضرات اہل علم نے اس کی تصریح فرمائی ہے کہ جو کوئی کہے کہ ان پانچ باتوں کو اللہ کے سوا اور کوئی جانتا ہے وہ کافر ہوجائیگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ چناچہ اس بارے ملاحظہ ہو تفسیر خازن : ج 5 ص 183، عمدۃ القاری : ج 7 ص 61، اور ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ۔ ؓ ۔ فرماتی ہیں کہ " جو شخص یہ کہے کہ آنحضرت ۔ ﷺ ۔ کل کا علم رکھتے تھے تو بیشک اس نے اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا " (صحیح بخاری : ج 2 ص 720 و مسلم : ج 1 ص 98، مسند ابو عوانہ : ج 1 ص 154، ص 155 وغیرہ ) ۔ سو غیب کے سب خزانے بھی اس وحدہ لاشریک کے پاس ہیں اور خزانوں کی کنجیاں بھی اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہیں۔ وہ ان میں سے جس کو چاہے جتنا چاہے اور جب چاہے عطا فرمائے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور بعض جزئی قسم کے جو واقعات بعض روایات میں اس ضمن میں ملتے ہیں، اول تو وہ شواذ ہیں، جو ان قواعد کلیہ میں حارج اور ان کی قطعیت میں قادح نہیں ہوسکتے۔ دوسرے یہ کہ وہ قطعیت اور یقین کے حامل نہیں، بلکہ محض ظن و گمان کے درجے میں ہوتے ہیں۔ اور تیسرے یہ کہ وہ دعا کے قبیل سے ہوتے ہیں نہ کہ جزم و قطع کے قبیل سے۔ پس اہل بدعت کا ان کی بنا پر مفاتیح الغیب کا علم اللہ کے بندوں کے لئے ثابت کرنا باطل و مردود ہے کہ ایسا کہنا اور ماننا نصوص کتاب و سنت سے معارض اور دین متین کی واضح بنیادی تعلیمات کیخلاف اور ان سے متصادم ہے ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہِ الْعَظِیْمِ مِنْ کُلِّ زَیْغٍ وَّضَلَال ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ راہ حق پر ثابت قدم رکھے اور ہر حال میں اپنی رحمت و عنایت کے سائے میں رکھے ۔ آمین۔ 102 اللہ تعالیٰ کی عظمت شان کا ایک خاص مظہر : کہ وہ بحر و بر کی ہر چیز کو جانتا ہے اور پوری طرح اور ایک برابر جانتا ہے۔ سو وہ جانتا ہے کہ وہ پتہ کب اور کہاں گرا اور اب کہاں ہے ؟ یہ سب کچھ اس وحدہ لاشریک کے علم میں ہے۔ سو جس ذات اقدس و اعلیٰ کی شان یہ ہو اس کو دنیاوی بادشاہوں پر قیاس کرکے اس کے لئے خود ساختہ واسطے اور وسیلے ڈھونڈنا اور ثابت کرنا کس قدر ظلم اور کتنی بڑی ناانصافی ہے ؟ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اللہ تعالیٰ کی شان بہت بڑی اور بےمثال ہے۔ پس اس کیلئے اپنی طرف سے مثالیں بیان کرنے کی بجائے اس کو ویسا ہی مانا جائے جیسا کہ اس نے اپنی کتاب حکیم میں خود ارشاد فرمایا ہے۔ یا اس کے رسول برحق نے اپنے ارشادات سے واضح فرمایا ہے۔ اس کے بغیر اس وحدہ لاشریک کی صحیح معرفت ممکن نہیں ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو بحر و بر اور رطب و یا بس کے الفاظ اس کے علم کے عموم وشمول اور احاطہ و وسعت کو ظاہر کرنے کے لئے ہیں۔ یعنی اس وحدہٗ لاشریک کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے علم کی اس وسعت کا اعتقاد ہی ہے جو اہل ایمان کے اندر کامل تفویض، کامل اعتماد اور کامل رضا بالقضاء کا حوصلہ پیدا کرتا ہے۔ اس میں معمولی سی غلط فہمی بھی شرک کی راہیں کھول دیتی ہے۔ اور یہی چیز آخرت کے سچے پکے ایمان و یقین کی اساس و بنیاد ہے اور اسی کے صحیح تصور و تذکر اور اس کے استحضار سے انسان کے اندر وہ خشیت پیدا ہوتی ہے جو اس کو زندگی میں صحیح روش اختیار کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ اور قرآن حکیم کے اس بیان سے ان لوگوں کی بھی پوری پوری تردید ہوجاتی ہے جو خدا تعالیٰ کو صرف کلیات کا عالم مانتے ہیں۔ سو خداوند قدوس صرف کلیات ہی کا نہیں جزئیات کا بھی عالم ہے۔ سو درخت سے جو پتہ گرتا ہے اور زمین کی تہوں میں جو دانہ ڈالا جاتا ہے وہ سب اس کے علم میں ہوتا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ - 103 کتاب مبین سے مراد ؟ : سو اس کے کمال علم کے بیان کے سلسلے میں فرمایا گیا کہ یہ سب کچھ مسطور و مندرج ہے ایک عظیم الشان اور روشن کتاب میں۔ یعنی لوح محفوظ میں۔ جو کہ درحقیقت کنایہ ہے علم الہٰی اور اس کی محفوظیت سے کہ جس طرح لکھی ہوئی چیز بھول اور نسیان وغیرہ سے محفوظ رہتی ہے، اسی طرح علم خدا وندی بھی ہر شائبہ نقص و نسیان سے محفوظ ہے ۔ کما قال الامام الرازی وغیرہ من الائمہ ۔ باقی علم خدا وندی کی کنہ و حقیقت کا احاطہ و ادراک اس ذات وحدہ لاشریک کے سوا اور کسی کے لئے ممکن نہیں۔ پس اہل بدعت کے بعض بڑوں اور تحریف پسندوں کا اس موقع پر یہ کہنا باطل و مردود ہے کہ یہ لکھنا خاص مقرب بندوں کو بتانے کے لئے ہے جن کی نظر لوح محفوظ پر ہے۔ شرک و بدعت کے مارے ان فریفتگان تحریف و تخریف اور علمبرداران زیغ و انحراف سے کوئی پوچھے کہ اگر لوح محفوظ کا یہ لکھا جانا ان کے اپنے ہی قراردادہ مقرب بندوں کو بتانے کیلئے ہوتا ہے تو پھر وہ محفوظ ہی کیسے ہوا ؟ بہرکیف کتاب مبین سے مراد لوح محفوظ ہے جو کہ درحقیقت کنایہ ہے خداوند قدوس کے علم لامتناہی سے۔ (المراغی، المحاسن، المدارک، الفتح اور الصفوۃ وغیرہ) ۔ اسی لئے حضرات اہل علم اس کی تشریح و تفسیر اس طرح کے الفاظ سے کرتے ہیں ۔ " اَیْ مکتوبٌ ومحفوظٌ فِی الْعِلم الالٰہی، وَھُوَا المتبادِرُ مِنْ اطلاقہ اینما ورد " ۔ (محاسن التاویل وغیرہ) ۔ بہرکیف یہ اللہ تعالیٰ کے محیط کل علم کی تعبیر ہے۔ سو اس خدائے پاک کو مخلوق پر قیاس کر کے اس کے لئے اپنے طور پر اور من گھڑت وسیلے اور واسطے گھڑنا کس قدر ظلم و زیادتی ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو وہ وحدہ لا شریک انسان کے تصور و خیال سے کہیں اعلیٰ اور بلند وبالا ہے کہ اس کو ویسے ہی جانا اور مانا جائے جیسا کہ وہ اپنے بارے میں خود بتائے یا اس کا رسول بتائے۔ سو خداوند قدوس کی معرفت قرآن وسنت کے نور مبین کے بغیر ممکن نہیں ۔ سبحانہ وتعالیٰ -
Top