Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 32
وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ١ؕ وَ لَلدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
وَمَا : اور نہیں الْحَيٰوةُ : زندگی الدُّنْيَآ : دنیا اِلَّا : مگر (صرف) لَعِبٌ : کھیل وَّلَهْوٌ : اور جی کا بہلاوا وَلَلدَّارُ الْاٰخِرَةُ : اور آخرت کا گھر خَيْرٌ : بہتر لِّلَّذِيْنَ : ان کے لیے جو يَتَّقُوْنَ : پرہیزگاری کرتے ہیں اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : سو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے
اور کچھ نہیں دنیا کی یہ زندگی مگر اک کھیل اور تماشہ، اور آخرت کا گھر تو یقیناً اس سے کہیں بہتر ان لوگوں کیلئے جو (ڈرتے اور) بچتے ہیں (اپنے رب کی نافرمانی و ناراضگی سے) تو کیا تم لوگ (پھر بھی) نہیں سمجھتے ؟3
45 دنیا کی زندگی محض ایک کھیل اور تماشا : سو ارشاد فرمایا گیا اور کلمات حصر و قصر کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ یہ دنیاوی زندگی ایک کھیل اور تماشے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کہ جس طرح کھیل تماشے میں لگ کر ایک بچہ اپنے اصل مقصد کو بھول جاتا ہے، اسی طرح ابنائے دنیا دنیا کی چمک دمک اور اس کی ظاہری چکا چوند میں کھو کر اور اس کے مفادات سمیٹنے میں لگ کر آخرت کی اپنی اصل اور حقیقی منزل کو بھول گئے۔ اور اس دنیائے دوں کی عارضی اور فانی لذتوں میں منہمک ہو کر انہوں نے اپنے پورے سرمایہ حیات کو اسی میں تج دیا۔ اور اسی کے کمانے بنانے اور جوڑنے بڑھانے کو انہوں نے اصل مقصد حیات اور نصب العین بنا لیا جو کہ سب سے بڑا نقصان اور ناقابل تلافی خسارہ ہے۔ جبکہ اصل، حقیقی اور ابدی زندگی تو آخرت کی زندگی ہی ہے۔ سو اس سے منہ موڑ کر دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی کو اصل مقصد بنا لینا خساروں کا خسارہ اور ناقابل تلافی نقصان ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ مگر ابنائے دنیا ہیں کہ اس سب کے باوجود اندھے اور بہرے بن کر اور آخرت کی اصل اور حقیقی زندگی کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر اسی دنیا کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور وہ اسی کو سب کچھ سمجھے بیٹھے ہیں ۔ الا ماشاء اللہ ۔ سو اس سے مومن صادق کی عظمت شان کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جس دنیا کو ابنائے دنیا سب کچھ سمجھتے اور اس کو انہوں نے اپنا قبلہ اور مقصود حیات بنا رکھا ہے اور وہ دن رات اسی کے بنانے سنوارنے اور جوڑنے جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں وہ مومن صادق کے نزدیک قرآن وسنت کی نصوص صریحہ کے مطابق ایک کھیل اور تماشہ کے سوا کچھ نہیں ۔ فَیَا لعَظْمَۃ الایْمَانِ وَالْیَقِیْنِ ۔ اَللّٰہُمَّ فَزِدْنَا مِنْہُ وَثَبِّتْنَا عَلَیْہِ بِمَحْضِ مَنِّکَ وَ کَرَمِکَ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالِْاکْرَامِ - 46 عقل سے کام لینے کی دعوت : سو ارشاد فرمایا گیا اور تحریض و ترغیب کے لیے بطور سوال و استفہام ارشاد فرمایا گیا کہ " کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ؟ " کہ لہو و لعب کی اس عارضی اور فانی زندگی کو آخرت کی اس ابدی حقیقی اور دائمی زندگی پر ترجیح دیتے ہو جو کہ سراسر خسارے کا سودا ہے ؟ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو عقل و خرد کا تقاضا یہ ہے کہ انسان آخرت کی اس حقیقی اور ابدی زندگی کو اصل مقصد اور نصب العین بنائے اور دنیا کی اس عارضی فرصت کو اسی کے بنانے میں صرف کرے کہ یہ دنیا آخرت کی کھیتی اور اس کی کمائی کیلئے قدرت کی بخشی ہوئی ایک فرصت ہے ۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقِ ۔ اور آخرت اس دنیا سے کہیں بڑھ کر بہتر بھی ہے اور ابدی و دائمی بھی۔ تو پھر ان لوگوں کی عقلوں کو آخر کیا ہوگیا جو آخرت کی اس ابدی اور حقیقی زندگی کو بھول کر اور اس کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر اسی دنیائے فانی پر ریجھ گئے اور وہ اسی کے لئے جینے اور مرنے لگے۔ پھر یہاں پر آخرت سے سرفرازی کا طریقہ بھی بتادیا گیا کہ وہ ہے تقویٰ و پرہیزگاری اور خوف خداوندی۔ پس ہمیشہ اسی کو اپنانے کی فکر و کوشش ہونی چاہیے ۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْق -
Top