Tafseer-e-Madani - Az-Zumar : 26
فَاَذَاقَهُمُ اللّٰهُ الْخِزْیَ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ۚ وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
فَاَذَاقَهُمُ : پس چکھایا انہیں اللّٰهُ : اللہ الْخِزْيَ : رسوائی فِي : میں الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا ۚ : دنیا وَلَعَذَابُ : اور البتہ عذاب الْاٰخِرَةِ : آخرت اَكْبَرُ ۘ : بہت ہی بڑا لَوْ : کاش كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے ہوتے
اس طرح اللہ نے چکھا دیا ان لوگوں کو مزہ رسوائی کا دنیا کی زندگی میں اور آخرت کا عذاب تو یقینی طور پر اس سے کہیں بڑھ کر (ہولناک اور رسوا کن) ہوگا کاش کہ یہ لوگ جان لیتے
60 منکرین کے لیے ذلت و رسوائی کا عذاب ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " آخر کار اللہ نے انکو چکھایا ذلت و رسوائی کا عذاب اس دنیاوی زندگی میں "۔ معلوم ہوا کہ انسان کو اپنے کئے کرائے کی سزا کبھی اور کسی حد تک آخرت سے پہلے اس دنیا میں بھی مل کر رہتی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اللہ پاک کی سنت اور اسکا دستور ہمیشہ یہ رہا کہ اس نے مکذبین و منکرین کو ایک حد تک مہلت دی تاکہ ان پر حجت تمام ہوجائے۔ اس کے بعد اگر وہ لوگ اپنی تکذیب و انکار سے باز نہ آئے تو لازماً انکو تباہ کردیا گیا۔ اور پھر اسی دنیاوی عذاب پر بس نہیں بلکہ اصل عذاب تو آخرت کا ہے جو کہ بڑا ہی سخت ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ۔ { وَلَعَذَاب الآخِرَۃِ اَشَقُّ وَمَا لَہُمْ مِنَ اللّٰہِ مِن وَّاقٍ } ۔ (الرعد : 34) ۔ نیز آخرت کا عذاب بڑا سخت بھی ہے اور ہمیشہ رہنے والا بھی ۔ والعیاذ باللہ ۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ۔ { وَلَعَذَاب الآخِرَۃ اَخْزیٰ } ۔ ( طہ : 127) ۔ سو کفر و انکار ہلاکتوں کی ہلاکت اور ہمیشہ کی خرابی و بربادی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اور ہر لحاظ سے اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین۔ 61 علم حق سے محرومی دارین کی سعادت و سرخروئی سے محرومی ۔ والعیاذ باللہ : ۔ سو ارشاد فرمایا گیا اور بڑے درد و سوز بھرے انداز میں ارشاد فرمایا گیا کہ " کاش کہ یہ لوگ جان لیتے "۔ حق اور حقیقت کو۔ اور اپنے مآل و انجام کو۔ تاکہ اس طرح یہ بچ جاتے ہلاکت و تباہی کے راستوں سے اور برے نتیجے اور انجام سے۔ قبل اس سے کہ فرصت حیات اور مہلت عمل ان کے ہاتھ سے نکل جائے۔ سو اس سے ایک بات تو یہ واضح ہوگئی کہ علم حق نجات کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ کیونکہ یہی وہ نور ہے جو انسان کو مہالک سے بچاتا اور سیدھی راہ سے روشناس کراتا ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ اس سے مراد عام دنیاوی علم نہیں۔ جیسا کہ عام لوگوں کا کہنا اور ماننا ہے۔ کیونکہ وہ علم انسان کو خدا کے عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ بلکہ علم سے مراد یہاں پر حق اور حقیقت کا وہ علم ہے جو انسان کو وحی کے نور سے ملتا ہے اور جو صرف قرآن اور سنت کی شکل میں موجود ہے۔ اور قیامت تک موجود رہے گا۔ پس نتیجہ یہ نکلا کہ اب نجات صرف قرآن و سنت سے وابستگی میں ہے ۔ وباللہ التوفیق ۔ اور جو لوگ اس نور علم سے محروم و بےبہرہ ہیں وہ سراسر محروم اور تہ در تہ اندھیروں میں ہیں اگرچہ وہ چاند پر ہی کیوں نہ پہنچ جائیں اور مریخ پر ہی کمندیں کیوں نہ ڈالتے ہوں ۔ والعیاذ باللہ -
Top