Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 183
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَيْكُمُ : تم پر الصِّيَامُ : روزے كَمَا : جیسے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار بن جاؤ
اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو فرض کردیا گیا تم پر روزہ رکھنا جس طرح کہ وہ فرض کیا گیا تھا ان لوگوں پر جو گزر چکے ہیں تم سے پہلے تاکہ تم لوگ متقی اور پرہیزگار بن جاؤ3
493 روزوں کی فرضیت کا حکم : خود تمہارے فائدے اور بھلے کیلئے تاکہ اس طرح تمہاری ایمانی قوت مضبوط ہو جو کہ اساس و بنیاد ہے مکارم و معالی کی۔ اور تم روحانی ترقی کے درجات طے کرتے جاؤ۔ اور تمہاری قوت شہویہّ اور غضبِیّہ کو لگام دی جائے جو کہ منبع ہے ہر شر و فساد کا۔ اور اسے رام کر کے حق کے تابع کیا جائے جو کہ تقاضا ہے تمہارے دین و ایمان کا۔ اور جس میں تمہاری بہتری اور بھلائی ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ سو روزہ رکھنا تمہارے ایمان کا تقاضا ہے تاکہ اس کے ذریعے تمہارے قلب و باطن کا تزکیہ ہو اور شہوت و غضب کی قوتیں کمزور پڑیں۔ اور روحانی ملکات قوت پکڑیں اور عروج حاصل کریں کہ مومن کی اصل قوت اس کے قلب و باطن کی قوت ہے۔ جس پر دارین کی سعادت و سرخروئی کا مدارو انحصار ہے۔ اسی لیے تم لوگوں کو روزے کی اس عظیم الشان عبادت سے نوازا گیا ہے۔ تاکہ تمہارا بھلا ہو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ 494 روزوں کی فرضیت امم سابقہ پر : یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) سے لیکر حضرت عیسیٰ تک گزرنے والے سب ہی لوگوں پر۔ سو تفصیلات کے اعتبار سے ان میں اگرچہ فرق و اختلاف رہا، مگر روزے کی نفس فرضیت ان سب ہی امتوں اور جملہ لوگوں پر رہی (معارف للکاندہلوی (رح) وغیرہ) ۔ سو یہ کوئی ایسی چیز نہیں جس سے تم ہی لوگوں کو سابقہ پیش آ رہا ہو بلکہ یہ مقدس عبادت ہمیشہ ہی فرض رہی۔ چناچہ حضرت آدم پر ہر مہینے کے تین روزے فرض تھے۔ یعنی ایام بیض کے روزے۔ اور یہود پر " عاشوراء "، " یوم السبت " اور کچھ اور دنوں کے روزے فرض تھے۔ اور نصاریٰ پر رمضان ہی کے روزے فرض تھے۔ اور حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابن عباس اور حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی و منقول ہے کہ عاشوراء اور ہر مہینے کے تین روزے حضرت نوح کے زمانے سے لے کر حضور ﷺ کے زمانے تک مقرر رہے۔ یہاں تک کہ رمضان کے روزوں کے حکم سے ان کی فرضیت منسوخ ہوگئی ( نفس المرجع ) ۔ سو روزے پہلے لوگوں پر بھی فرض رہے ہیں۔ 495 روزے کا مقصد حصول تقویٰ و پرہیزگاری : کہ اس طرح تم دنیا میں اپنے خالق ومالک کی معصیت و نافرمائی سے بچو، اور اس کے نتیجے میں آخرت میں تم اس کی گرفت و پکڑ اور دوزخ کی اس ہولناک آگ سے بچو، جو کہ سب سے زیادہ سخت ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو روزہ تمہارے لیے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے، اور اس میں سراسر تمہارا ہی بھلا اور فائدہ ہے۔ اور اس کی خاصیت اور تاثیر یہ ہے کہ اس سے انسان کے اندر تقویٰ و پرہیزگاری کی صفت پیدا ہوتی ہے۔ اور اس سے شہوت و غضب کی ان سرکش قوتوں کا زور ٹوٹتا ہے جو انسان کو بےراہروی پر اکساتی اور لگاتی ہیں۔ سو روزے میں تمہارے لیے اصلاح اور اسعاد کے بڑے سامان پوشیدہ ہیں۔ اور اس میں تم لوگوں کی خیر اور سعادت کے بڑے بڑے راز مضمر ہیں جن کا احاطہ اللہ تعالیٰ ہی کرسکتا ہے ۔ سبحانہ وتعالٰی -
Top