Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 182
فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًا فَاَصْلَحَ بَیْنَهُمْ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
فَمَنْ : پس جو خَافَ : خوف کرے مِنْ : سے مُّوْصٍ : وصیت کرنے والا جَنَفًا : طرفداری اَوْ اِثْمًا : یا گناہ فَاَصْلَحَ : پھر صلح کرادے بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان فَلَآ اِثْمَ : پس نہیں گناہ عَلَيْهِ : اس پر اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
البتہ جس کسی کو اندیشہ و خوف ہو وصیت کرنے والے کی جانب سے کسی طرف داری یا گناہ کا اور اس بناء پر وہ ان کے درمیان صلح صفائی کروا دے تو ایسے شخص پر کوئی گناہ نہیں2 بیشک اللہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہے
492 صحیح طور پر صلح صفائی کی تلقین : اس طور پر صلح صفائی کرا دے کہ اس سے عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ نہ کسی کی حق تلفی ہو اور نہ کسی پر کوئی ظلم و زیادتی۔ تو اس پر کوئی الزام و گناہ نہیں کہ یہ افساد نہیں اصلاح ہے۔ اور فساد و بگاڑ نہیں بلکہ صلح صفائی ہے جو کہ مطلوب و محمود ہے ۔ وباللہ التوفیق ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ اگر وصیت کرنے والے کی وصیت میں کوئی جانبداری یا حق تلفی پائی جائے تو اس کی اصلاح کرنا وصیت کی تبدیلی نہیں ہے۔ اس لیے ایسی صلح کرا دینا درست ہے کیونکہ ایسا کرنا بگاڑ نہیں اصلاح ہے جو کہ مطلوب و محمود ہی ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید -
Top